ہر دوسرے سال ملک کو گندم اور آٹے کے مختلف قسم کے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی گندم کی قلت پیدا ہوتی ہے تو کبھی آٹے کا حصول مشکل ہو جاتا ہے۔ ہر حکومت نئے تجربات کرتی ہے جس سے نقصان صرف عام آدمی کا ہوتا ہے جس میں صرف اتنی سکت ہے کہ وہ اپنے خاندان کو دو وقت کی روٹی مہیا کر سکے۔ اب روٹی بھی اس کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔
گندم کی پیداوار زیادہ ہو تو بحران، کم ہو تو مسئلہ، یہ مسائل زیادہ تر پنجاب کے کسانوں کو درپیش ہوتے ہیں۔ اس مرتبہ گندم کی بمپر فصل ہوئی مگر حکومت کسانوں سے گندم خریدنے میں کوتاہی برت رہی ہے جس کی ذمہ داری وہ نگران حکومت پر ڈال رہی ہے کہ انہوں غیر ضروری طور پر گندم درآمد کروائی۔ اب وزیراعظم اس کی تحقیقات کریں گے۔
پاکستان میں کسی مستحکم اور مربوط پالیسی کی عدم موجودگی کے باعث آئے روز کوئی نیا بحران کھڑا ہو جاتا ہے۔ایک جانب شہباز شریف صوبہ پنجاب میں سستی روٹی سکیم کے ذریعے عوام کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر زیادہ مسائل سامنے آئے تو سکیم ختم کرنا پڑی لیکن اس کے باوجود حکومتی خزانے کو خاصا نقصان پہنچا۔
عمران خان کے دور حکومت میں چکی کے آٹے کی قیمتیں بڑھنے لگیں، عوام بلبلا اٹھے۔ تحریک انصاف حکومت نے گندم کی سپلائی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی تاکہ ذخیرہ اندوز فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ مگر فائدے کی بجائے نقصان ہوا۔
گندم کی نقل و حرکت پر پابندی لگا دی گئی اور قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں، شہروں میں گندم کی عدم دستیابی نے ایک نیا بحران پیدا کردیا۔ اگلے سال حکومت کو سمجھ آئی کہ آپ سپلائی چین بند نہیں کرسکتے، مارکیٹ میں اناج کی وافر مقدار کی دستیابی سے قیمتیں خودبخود کنٹرول میں رہتی ہیں۔
اس مرتبہ پنجاب میں گندم کی وافر پیداوار نے حکومت کو پریشانی میں ڈال دیا ہے۔ کسان انتظار میں ہیں کہ کب حکومت سرکاری نرخوں پر ان سے گندم خریدتی ہے۔ پنجاب میں گندم کی سرکاری قیمت 3900 روپے فی من برقرار رکھی گئی ہے جبکہ سندھ نے فیصلہ کیا کہ وہ کسانوں سے 4000 روپے فی من گندم خریدے گی جس سے کسان بہت خوش دکھائی دیتے ہیں۔
پنجاب میں قیمت بھی کم ہے اور گندم خریدی بھی نہیں جارہی ہے۔ جس نے کسانوں کو سڑکوں پر مظاہرے کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
دوسری طرف وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اسٹیک ہولڈرز (تندور مالکان) سے مشاورت کے بغیر ہی حکم جاری کیا کہ روٹی کی قیمت 20 روپے سے کم کرکے 16 روپے میں بیچی جائے اور وزراء اور افسروں کی ٹیمیں بنا کر چھاپے مارنا شروع کردیے، ہزاروں مقدمات اور کئی سو گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔
عوام کو یہی بتایا گیا کہ تندور مالکان اور ان کی تنظیموں سے مشاورت کرنے کے بعد ہی یہ احکامات جاری کیے گئے ہیں۔
تندور مالکان اور نان بائی ایسوسی ایشن کے صدر نے ایک ٹی وی شو میں صاف انکار کر دیا کہ ان سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی، حکومت نے ازخود روٹی کی قیمت کم کردی۔ انہوں نے جواز پیش کیا کہ بجلی، گیس اور دیگر اشیاء کی بڑھتی قیمتوں کے پیش نظر 16 روپے میں روٹی بیچنا کسی صورت ممکن نہیں۔
اب بھی لاہور جیسے بڑے شہروں میں 16 روپے کی روٹی دستیاب نہیں۔ پوش علاقوں میں تندور مالکان روٹی 30 سے 40 روپے میں بیچ رہے ہیں۔ وہ بھی کیا کریں کہ ان علاقوں میں کرائے بہت زیادہ ہیں اور دیگر اخراجات بھی شہر کے دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ ہیں۔
نان بائی اور تندور مالکان کی تنظیمیں احتجاج کے طور اپنے کاروبار بند کررہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومتی زور زبردستی سے وہ روٹی کی قیمت کم کرنے کی بجائے کاروبار کرنے کو ترجیح دیں گے۔
دوسری جانب گندم، روٹی اور دیگر غذائی اجناس کی برآمدات نے بھی اشیاء خورونوش کو عوام کی دسترس سے باہر کر دیا ہے۔ اس کا سارا ملبہ بھی وفاقی حکومت پر گرے گا۔ حالیہ سالوں میں لوگوں کے ذرائع آمدن کم اور اخراجات تیزی سے بڑھے ہیں جس کی وجہ سے عوام کا جینا محال ہو گیا ہے۔
حکومت کسی قسم کا ریلیف دینے پر رضامند نہیں یا پھر معاشی حالات اجازت نہیں دیتے کہ وہ عوام کو کوئی فائدہ پہنچا سکیں۔
پاکستان میں نظام کسی منصوبہ بندی کے بغیر چلانے کی کوشش کی جاتی ہے جس کی وجہ سے عوام کے ٹیکس کا پیسہ ضائع ہوتا ہے۔ حکومت کی نااہلی اور نالائقی کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔