ہیپاٹائٹس بی وائرس نے دنیا میں تقریباً 30 کروڑ افراد کو متاثر کیا ہوا ہے لیکن یہ کوئی نیا وائرس نہیں بلکہ ساڑھے 4 برس سے انسانوں کی جان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہوا ہے۔
مزید پڑھیں
محققین کو 12 قدیم ہیپاٹائٹس بی جینوم ملے ہیں جن میں وائرس کی ایک تبدیلی بھی شامل ہے جو کہ اب ناپید ہے۔
نیچر نامی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ہیپاٹائٹس بی کانسی کے زمانے کے انسانی ڈھانچوں میں پایا گیا جس سے یہ اب تک کا دریافت ہونے والا قدیم ترین انسانی وائرس ہے۔
جب دریافت کیا گیا تو جینیاتی ماہرین کی ایک ٹیم نے تقریباً 300 ڈھانچوں سے ڈی این اے کا نمونہ لیا۔ 200 سے 7000 سال پرانے ڈھانچے یورپ اور ایشیا کے تھے۔
انہیں 12 قدیم انسانوں میں 12 HBV جینوم ملے جس سے معلوم ہوا کہ آج ایشیا اور افریقہ میں HBV کی وہی اقسام ہزاروں سال پہلے موجود تھیں۔
انہوں نے وائرس کی معدوم ہونے والی تغیرات کو بھی پایا۔ حالانکہ پہلے یہ معلوم نہیں تھا کہ وائرس معدوم ہو سکتے ہیں۔
ساڑھے 4 ہزار سالہ قدیم انسان جرمنی کے اوسٹر ہوفن میں ’بیکر بیل‘ ثقافت سے تھا جس کا نام گھنٹی نما برتنوں کو دیکھتے ہوئے رکھا گیا تھا جو اس دور میں استعمال ہوا کرتے تھے۔
اس سے پہلے انسانوں میں پائے جانے والے قدیم ترین وائرس کی تاریخ صرف 450 سال تھی۔ جرمنی میں انسانی تاریخ کی سائنس کے لیے میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ کے ایک ارتقائی جینیاتی ماہر جوہانس کراؤس کا کہنا ہے کہ وہ سب اس تحقیق پر کافی خوش ہیں کہ انہیں اس وائرس کا اتنا قدیم سراغ ملا۔
وکٹورین انفیکشن ڈیزیزز ریفرنس لیبارٹری کی ایک سینیئر طبی سائنسدان للی یوین کے مطابق انہوں نے قدیم پرندوں کے جینوم میں ایچ بی وی پایا ہے جو بتاتے ہیں کہ یہ درحقیقت لاکھوں سال پرانا ہو سکتا ہے۔
ہیپاٹائٹس بی کیا ہے؟
ہیپاٹائٹس بی جگر کا ایک انفیکشن ہے جو جگر کی ناکامی یا کینسر کا باعث بن سکتا ہے۔ اگرچہ ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین موجود ہے لیکن دائمی انفیکشن کا ابھی تک کوئی علاج نہیں ہے۔
جن لوگوں کو دائمی ہیپاٹائٹس بی ہوتا ہے وہ اکثر بچپن میں متاثر ہوتے ہیں اور انہیں اس کا علم نہیں ہوتا کیونکہ علامات کئی سالوں تک غیر فعال رہتی ہیں۔
اس دوران بیماری بڑھ جاتی ہے اور مریض کو بہت بعد میں اس اسٹیج پر ہی پتا چلتا ہے جب جگر پر داغ پڑنے لگتے ہیں۔
ہیپاٹائٹس بی میں بہت سے تغیرات ہیں جو اب موجود نہیں ہیں۔ اس تحقیق میں پائی جانے والی نئی معلومات وائرس کے مسلسل ارتقا کے بارے میں بصیرت فراہم کر سکتی ہیں جو ہمیں خطرناک نئے تناؤ کے لیے تیار کرنے میں مدد کر سکتی ہیں۔
یونیورسٹی آف سڈنی کے ماہر وائرولوجسٹ ایڈورڈ سی ہومز کا مذکورہ تحقیق کو ایک اہم کامیابی قرار دیا ہے۔