پنڈی نے 9 مئی کو بھلایا نہیں ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کو جس طرح انتشار اور جھوٹ پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے اور معافی مانگنے، محاذ آرائی ترک کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے، اس سے بیک ڈور مذاکرات کے لیے کسی نرمی کا اشارہ نہیں ملتا۔اس سے تو یہی لگتا ہے کہ بات بڑھ گئی ہے۔
9 مئی کے واقعات پر تحقیقاتی کمیشن بنانے کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ کمیشن کی ضرورت نہیں ہے ۔ اگر بنانا ہے تو پھر وہ 2014 کے دھرنوں کی بھی تحقیق کرے۔ تب ٹی وی اسٹیشن اور سرکاری تنصیبات پر ہوئے حملوں کو بھی دیکھے۔ خیبر پختونخوا کی پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے سرکاری وسائل میں ہونے والے احتجاج اور دھرنوں کی بھی تحقیقات کرے ۔
ڈی جی آئی ایس پی آر احمد شریف نے 9 مئی کے ملزمان کو سزا نہ ملنے اور سوشل میڈیا پر جھوٹ پھیلانے پر قانون سازی نہ ہونے کی بھی بات کی ۔ یہ عدلیہ اور پارلیمنٹ سے بھی ایک گلہ ہے ۔ امریکا میں ٹرمپ کے حامیوں کو احتجاج اور توڑ پھوڑ پر ملی سزاؤں کا موازنہ 9 مئی کے ملزمان سے کیا گیا ہے۔
امریکی مظاہرین نے فوجی تنصیبات پر حملے نہیں کیے تھے نہ شہدا کی یادگاروں کو نقصان پہنچایا تھا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس پنڈی کی سوچ کا اظہار ہے ۔
پنڈی کا مؤقف تو سامنے آ گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن پی ٹی آئی کی بڑی مخالف سیاسی جماعتیں ہیں۔ عدم اعتماد کے بعد ان کے اتحاد ’پی ڈی ایم‘ نے ہی حکومت بنائی۔ 9 مئی کا واقعہ بھی انہی کے دور حکومت میں ہوا۔ دونوں بڑی جماعتیں 9 مئی کے واقعات پر ڈھیلے ڈھالے بیانات دے کر لمبی چپ تان لیتی ہیں۔
’پی ڈی ایم‘ کی سربراہی مولانا فضل الرحمان کے پاس تھی یا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ 9 مئی کا بیانیہ عوام نے مسترد کر دیا ہے۔ 9 مئی پر جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) نے ملین مارچ کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔ مولانا نے ایک وضاحتی بیان بھی دیا ہے کہ ہمارے مارچ کا 9 مئی کے احتجاج سے کوئی تعلق نہیں۔
ایک طرف پنڈی سے بہت واضح مؤقف سامنے آیا ہے تو دوسری جانب مولانا فضل الرحمان کی زبانی دوسرے رخ کا اظہار ہوتا ہے۔ 9 مئی کے ملزمان کو سزا نہ ملنا، سوشل میڈیا پر جھوٹ کے خلاف قانون سازی نہ ہونے کی بات پر غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ ’پنڈی‘ اور پی ٹی آئی آپس میں ہی الجھے ہوئے ہیں، باقی سب سائڈ پر ہی بیٹھے ہیں۔
پی ٹی آئی نے عدم اعتماد کے بعد سیاسی ٹمپریچر کو بوائلنگ پوائنٹ پر ہی رکھا۔ کبھی امریکی سازش کا بیانیہ گھڑا، کبھی آئی ایم ایف کو خط لکھا، کبھی میر جعفر اور میر صادق کے استعارے استعمال کیے۔ اسمبلیاں توڑیں اپنی حکومتیں چھوڑیں اور مسلسل سڑکوں پر احتجاج کریں۔
کپتان کی گرفتاری پر احتجاج کیا تو وہ ایک بدصورت شکل اختیار کر گیا۔ کپتان کو تب رہائی بھی مل گئی تھی لیکن دوبارہ گرفتاری ہوئی اور تب سے بھائی اندر ہے اور اس کے وکیل اسمبلی پہنچ چکے ہیں۔
الیکشن نتائج کو بھی پی ٹی آئی نے مشکوک بنا دیا۔ حوالدار بشیر کی پھرتیاں کام نہ آئیں۔ مسلم لیگ ن کو پنجاب میں 3 باتیں لے بیٹھیں۔ ایک ’ہماری بات ہو چکی ہے‘، دوسری ’پروگرام تو وڑ گیا‘ اور تیسرا ’نک دا کوکا‘۔ اچھی طرح خجل خوار ہو کر ہی مسلم لیگ ن حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
9 مئی کی برسی اس حال میں آئی ہے کہ پاکستان میں سیاست اور معیشت مستحکم ہوتی ہوئی لگ رہی ہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام کی آخری قسط بغیر کسی رولے کے جاری ہو چکی ہے۔ سعودی انویسٹر پاکستان آ رہے ہیں۔
سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان کی تیاریاں جاری ہیں جبکہ وزیر اعظم کے دورہ چین کے لیے بھی سرگرمیاں جاری ہیں۔ پی ٹی آئی کے پاس اپنی پاور بیسڈ خیبر پختونخواہ میں ایک دیوالیہ حکومت ہے ۔ وزیر اعلیٰ ایسا ہے کہ جسے لڑنا تو آتا ہے اور کام کے حوالے سے ’کام جوان دی موت ہے‘ والی سائنس پر ہی ان کا یقین دکھائی دیتا ہے۔
9 مئی کے جتنے فریق ہیں چاہے وہ پی ٹی آئی ہو، پنڈی ہو، سیاسی جماعتیں ہوں، بینچ یا بار ہو، سیاست ہو یا سفارت ہو، کسی ایک کی پوزیشن دوسرے سے نہیں ملتی اور یہ ملنی بھی نہیں ہے۔
اس کا کسی کے پاس کوئی حل نہیں ہے۔ اپنا ایک مشورہ ہے کہ نئی قانون سازی کریں۔ اس میں سزا، قید کوڑوں یا پھانسی کی بجائے جرمانہ رکھیں اور سارا نقصان اور نئی تعمیرات کا خرچہ وصول کریں۔
9 مئی کے بندے گنیں، نقصانات کا حساب لگائیں اور اللہ کا نام لے کر پی ٹی آئی کے اکاؤنٹ سے کٹوتی کر لیں۔ جو بھی ایسی حرکتیں کرے اس کو سیدھا جرمانہ کر دیا جائے۔ کٹوتی کے بعد پی ٹی آئی والوں کو بھی اور دوسروں کو بھی باقاعدہ اُکسائیں کہ ملک میں جمہوریت ہے آزادی اظہار رائے ہے۔
آپ بولو، گھومو، پھرو دل چاہے تو احتجاج بھی کرو ۔ بس جرمانہ وقت پر ادا کرنا ہے بلکہ سرکار اکاؤنٹ سے خود وصول کر لے۔
اپنے بھائی حوالدار بشیر سے بس اتنا کہنا ہے کہ ہر بھائی لوگ ہر کوشش کر کے دیکھ چکے ہو۔ اک بار یہ جرمانوں والی آئٹم بھی کر کے دیکھو، ہر طرف سکون لہریں مارتا پھرے گا۔
نہ کسی کا کسی پر الزام لگانے کو دل کرے گا، نہ کوئی اشارہ توڑے گا اور نہ ہی کوئی جھوٹ پھیلائے گا۔ جرمانہ ایسی سزا ہے جو قوم کے مزاج کے مطابق ہے ۔ قوم کا مزاج یہ ہے کہ 1000 یا 500 جرمانے کے ڈر سے موٹر وے پر ناک کی سیدھ میں چلتی ہے۔