عربی کے بے بدل عالم اور اردو کے معروف شاعر ڈاکٹر خورشید رضوی کی کتابوں کے بارے میں گفتگو
ایک شخص جس کا زندگی بھر کتابوں سے سروکار رہا ہو، اس نے انہیں عزیز تر جانا ہو، خود کئی اعلیٰ ترین کتابوں کا مصنف ہو اور پھر دل نشیں گفتگو کا ہنر بھی رکھتا ہو، اس کی زبانی کتابوں کا تذکرہ سننا کس قدر شاندار تجربہ ہو سکتا ہے اس کا اندازہ ڈاکٹر خورشید رضوی کی گفتگو سے ہوا۔
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی
ان کے قدیمی شاگرد ڈاکٹر حسین احمد پراچہ نے گزشتہ ماہ لاہور جم خانہ کے بک کلب میں ایک بزم سجائی تھی جس میں رضوی صاحب نے ایسی کتابوں کا تذکرہ کرنا تھا جو ان کی زندگی پر اثر انداز ہوئیں۔
ڈاکٹر خورشید رضوی کا مطالعہ صرف موضوعات کے اعتبار ہی سے متنوع نہیں بلکہ اس میں اردو، عربی، فارسی، انگریزی اور پنجابی ادب کے علمی چشموں کی سیرابی بھی شامل ہے۔ اس لیے ان کی گفتگو میں دریائے شوق کی وہ روانی تھی جس کا آغاز تو ہو لیکن اختتام نہیں ہوسکتا۔
اسی لیے انہوں نے گفتگو کے آغاز ہی میں واضح کر دیا کہ ’اس گفتگو کو میں جہاں بھی چھوڑوں گا یہ ادھوری ہوگی‘۔ انہوں نے خود کو ان کتابوں کے ذکر تک ہی محدود رکھا جن کا تعلق ان کے بچپن اور زمانۂ طالب علمی سے زیادہ تھا۔
رضوی صاحب کی گفتگو سے پہلے ڈاکٹر حسین احمد پراچہ نے ان کی شخصیت اور کام کے بارے میں تعارفی مضمون پڑھا۔ اس کے بارے میں خورشید صاحب کا کہنا تھا کہ صاحبِ مضمون ان کے شاگرد ہیں، اس لیے ان کی گفتگو سے فارسی کا مقولہ یاد آتا ہے کہ ’پیراں نمی پرند مریداں می پرانند‘ یعنی پیر پرواز نہیں کرتے ان کے مرید انہیں اڑاتے ہیں۔
خورشید رضوی صاحب عربی زبان وادب کے عالم بے بدل ہیں، اس لیے کتاب کی اہمیت کے لیے سجی اس بزم میں انہوں نے موضوع کی جانب عربی کے ممتاز شاعر متنبی کے شعر سے روئے سخن کیا:
أَعَزُّ مَكانٍ في الدُنىٰ سَرجُ سابِحٍ
وَخَيرُ جَليسٍ في الزَمانِ كِتابُ
’دنیا میں معزز ترین مقام گھوڑے کی زین ہے اور بہترین ہم نشین کتاب ہے‘۔
کارلائل نے کہا ہے کہ کتاب ماضی کی روح ہے۔ اس پر صاد کرتے ہوئے خورشید صاحب کہتے ہیں: ’یہ مستقبل کی جان بھی ہے‘۔
کتاب کے بارے میں انہوں نے مزید کہ:
’یہ وقت میں ایک سرنگ بھی ہے۔ یہ آن واحد میں ایسے زمانے میں لے جاتی ہے جہاں کسی اور ذریعے سے ہم پہنچ نہیں سکتے۔ کسی نے یہ بھی کہا کہ اس کی بہت بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہر ساتھی آپ سے اکتا سکتا ہے لیکن کتاب آپ سے کبھی نہیں اکتاتی اور آپ سے کچھ طلب بھی نہیں کرتی۔ جب چاہیں آپ اسے ہاتھ میں اٹھا لیں اور جب چاہیں اسے رکھ دیں۔ اسے رکھنے پر کوئی شکوہ نہیں ہوتا اور نہ اسے اٹھانے کے لیے خاص اہتمام کرنا پڑتا ہے‘۔
جدید ٹیکنالوجی نے کتاب کے مستقبل پر کئی سوالات کھڑے کیے ہیں۔ کوئی اسے کتابوں سے محبت کی آخری صدی بتاتا ہے تو کوئی کچھ اور۔ اس بابت خورشید صاحب نے اپنا نقطہ نظر کچھ یوں بیان کیا:
’آج انٹرنیٹ اور دوسرے جدید ذرائع کی وجہ سے کتاب کی پرانی صورت کو متروک سمجھا جا رہا ہے۔ اس زمانے میں کتاب کی دست یابی میں بہت سہولت ہو گئی ہے۔ مثلاً مجھے کئی کتابوں کی تلاش میں 10،10 سال لگ گئے لیکن آج انٹرنیٹ کی وجہ سے ہم انہیں آسانی سے ڈھونڈ سکتے ہیں‘۔
’یہ سب باتیں اپنی جگہ لیکن کتاب کا ایک عمق بھی ہوتا ہے۔ اس کی ایک depth ہوتی ہے۔ اسے ٹھوس شکل میں ہاتھ میں لے کر پڑھنا ایک الگ تجربہ ہے۔ میری نسل اور میرے بعد کی نسل کے لیے بھی یہ ایک الگ تجربہ ہے اور شاید کوئی اور چیز اس کا متبادل نہیں ہوگی۔ کتاب ایک فضا بناتی ہے۔ اس کا لمس آپ کے لیے ایک احساس ہوتا ہے یہ کبھی ختم نہیں ہو گا اور میرا خیال ہے آہستہ آہستہ شاید اس کا احیا ہو گا‘۔
کتاب کے بارے میں تعارفی کلمات کے بعد رضوی صاحب نے اس پہلی اور دوسری کتاب کی بابت بتانا شروع کیا جن سے ان کے دل و دماغ کی دنیا منور ہوئی۔
ڈاکٹر خورشید رضوی نے بتایا:
’قرآن مجید وہ پہلی کتاب تھی جس سے زندگی میں واسطہ پڑا۔ بالکل بچپن سے یاد ہے کہ میری والدہ مرحومہ فجر کے بعد بڑی خوش الحانی سے قرآن پاک کی تلاوت کرتی تھیں اور جب میری آنکھ کھلتی تھی تو میرے کانوں میں آنے والی پہلی آواز وہی ہوتی تھی۔ انہی سے میں نے قرآن پاک پڑھنے کا آغاز کیا۔ چناں چہ بچپن میں جو تاثر پذیر زمانہ ہوتا ہے جس کتاب نے میرے ذہن پر پہلا اثر چھوڑا وہ قرآن پاک تھی۔ اس کا خاص آہنگ ہے اور اس کے اندر ایک صوتی کمال ہے۔ بعد میں خوش قسمتی سے میں عربی ادب کا طالب علم ہو گیا تو پھر مجھے اس کو سمجھنے اور اس کے ادبی کمالات دیکھنے کا بھی موقع ملا۔ یہ پھر میرے ساتھ زندگی بھر چلتا رہا اور اب بھی چل رہا ہے تو پہلی کتاب جس نے میرے ذہن پر اثرات مرتب کیے وہ قرآن پاک تھی‘۔
انہوں نے بچپن کی یادیں تازہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’قرآن پاک کے بعد میری والدہ مناجات مقبول پڑھا کرتی تھیں۔ اس میں وہ منظوم دعائیں تھیں جو حدیث اور مستند روایات میں آئی ہیں۔ اس پر عموماً مولانا اشرف علی تھانوی کا نام لکھا ہوتا ہے لیکن اصل میں ان کے مرید عبد الواسع صاحب نے دعاؤں کو مولانا کے کہنے پر اردو میں نظم کر دیا تھا تو میری والدہ اس کا ایک حصہ مخصوص لے کر بڑی روانی میں پڑھا کرتی تھیں جو میرے ذہن میں گونجتا رہتا ہے تو زندگی میں جن اولین کتابوں نے اثر چھوڑا ان میں مناجات مقبول بھی شامل ہے‘۔
کتاب سے رشتے کے سلسلے میں بات ابھی گھر کے اندر ہی ہے اور یہ والدہ محترمہ سے چھوٹے ماموں کی طرف جاتی ہے۔ شمیم احمد رضوی کالج میں اور خورشید رضوی ہائی اسکول میں تھے۔ گھر میں موجود ان کی کتابوں میں ایک کتاب نے خورشید صاحب کو اپنی طرف کھینچا جس کا ابتدائی اور آخری حصہ پھٹا ہوا تھا اس لیے وہ یہ جاننے سے قاصر تھے کہ کتاب کون سی ہے اور اس کا مصنف کون ہے؟ لیکن یہ پڑھنے میں انہیں بڑی دلچسپ لگی اور اس زمانے کے حساب سے اس کی طباعت کا معیار بھی اعلیٰ تھا۔ اس میں رستم و سہراب و دیگر کی کہانیوں کا نچوڑ بیان کیا گیا تھا۔
خورشید رضوی کے بقول ’میں نے بغیر یہ جانے کہ وہ کتاب کون سی تھی اس کی کہانیاں بڑے شوق کے ساتھ پڑھیں۔ اس کی تمام کہانیوں نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بہت بعد میں جا کر مجھے پتا چلا کہ شاہنامہ فردوسی میں جتنی کہانیاں آتی ہیں ان کا اردو میں کسی نے خلاصہ بیان کر دیا ہے‘۔
یہ بچپن کا قصہ ہے جس کی یاد ذہن سے محو نہیں ہوئی۔ بہت آگے چل کر انہیں شوق ہوا کہ تقریباً 60 ہزار اشعار پر مشتمل شاہنامہ فردوسی کی وسیع وعریض دنیا کی سیر کریں جو دنیا کے دوسرے بڑے رزمیوں مثلاً مہا بھارت ، اوڈیسی اور ایلیڈ کی فہرست میں شامل ہے۔
رضوی صاحب نے اسے جب خود پڑھا تو انہیں اس میں کہانی کی خوبی کے ساتھ ساتھ عجیب وغریب ادبی کمالات بھی نظر آئے جن کی طرف انہوں نے اپنی گفتگو میں کچھ یوں توجہ دلائی:
’میں اس بارے میں اپنا ذاتی تاثر عرض کر رہا ہوں، کسی کتاب سے بنی بنائی رائے نہیں دے رہا۔ مجھے فردوسی کے شاہنامے میں روشنی کا تصور بہت زیادہ دکھائی دیا تقریباً ہر صفحے پر۔ مثلاً خورشید کا لفظ بہت استعمال ہوا ہے۔ یا پھر کسی اور صورت میں روشنی کی کیفیت ہے۔ کوئی نہ کوئی صورت ایسی ہے جس میں کہ ریڈی ایشن ہو اور ایک روشنی پھوٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہے تو ایک میں اس سے متاثر ہوا کہ ایک عجیب جگمگاہٹ ہے‘۔
اس گفتگو میں تو نہیں البتہ اپنے ایک مضمون میں انہوں نے شاہنامے سے ایک شعر نقل کیا تھا جو ان کے ذہن سے کبھی اترا نہیں۔:
’شدہ بام ازو گوہرِ تابناک ز تابِ رُخش سُرخ یاقوت خاک
بام اُس کے ہونے سے
گوہرِ تابناک بن گیا
اور اُس کے چہرے کی تابانی سے
مٹی سُرخ یاقوت ہو گئی
’تابناک‘، ’تاب‘، ’سُرخ‘، ’یاقوت‘ جیسے الفاظ نے اس منظر کو کس قدر درخشاں اور رنگین بنا دیا ہے‘۔
شاہنامے میں روشنی کے بعد دوسری بڑی خوبی کے بارے میں انہوں نے فرمایا:
’اس کے امیجز بہت بڑے بڑے ہیں جس کے آگے ہمیں اپنے ادب کے امیجز چھوٹے نظر آتے ہیں۔ بعد میں میں نے دیکھا عربوں کے ہاں بھی امیجز بہت بڑے ہوتے ہیں‘۔
شاہنامے پر بات چلی تو انہیں وزیر الحسن عابدی صاحب کا خیال آیا جو پنجاب یونیورسٹی میں فارسی کے بہت بڑے استاد گزرے ہیں۔
رضوی صاحب نے بتایا: ’میرا ان سے ملنا بھی ہوا۔ کسی نے بتایا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ غالب چھوٹی اینٹ کا شاعر ہے اور فردوسی چٹانوں کا شاعر ہے‘۔
’بات ہورہی تھی شاہنامے میں بڑے امیجز کی مثلاً ایک جگہ اس نے کہا کہ اس کا ممدوح بہت سخی آدمی ہے اور بہت دلیر بھی ہے اور بہت طاقتور بھی تو اس نے 2 مصرعوں میں اسے یوں ادا کیاہے:
دل شیر نر دارد و زور پیل
دو دستش بکر دار دریائے نیل
وہ شیر نر جیسا دل رکھتا ہے اور ہاتھی جیسا زور اور اس کے دونوں ہاتھ دریائے نیل کا کردار رکھتے ہیں۔
’اس میں فردوسی نے دریائے نیل کا کردار کہہ کر دونوں ہاتھوں کی لمبائی جو ہے اس کا پھیلاؤ اتنا کر دیا ہے کہ جہاں تک دریا بہہ رہا ہے ہاتھ بھی جا رہے ہیں اور دریا میں جو سخاوت ہوتی ہے وہ ان ہاتھوں میں بھی ہے تو 2 چھوٹے چھوٹے مصرعوں میں اس نے 3 صفات کی دیکھیے کس طرح سے عکاسی کی ہے‘۔
اپنے مطالعاتی سفر پر گفتگو کے اگلے مرحلے میں خورشید رضوی صاحب گھر سے نکل کر اسکول میں داخل ہوتے ہیں جہاں ان کا تعلق ایسی کتاب سے استوار ہوتا ہے جس نے ان کے ادبی ذوق کی بنیادیں درست کیں۔یہ کتاب اس وقت 9ویں 10ویں کے نصاب میں داخل حافظ محمود شیرانی کی مرتب کردہ ’سرمایہ اردو‘ تھی۔
خورشید صاحب کے ہاں تحریر اور تقریر دونوں جگہ اس کا حوالہ آتا رہا ہے ۔اس نشست میں بھی اس کا ذکر لازمی ٹھہرا۔ حسب دستور اس بار بھی انہوں نے بہت محبت سے اس کتاب کا تذکرہ کیا:
’یہ بہت معیاری انتخاب تھا اور اس سے بہتر انتخاب کرنا مشکل ہے۔ سرمایہ اردو بڑا متنوع انتخاب تھا۔ اردو نثر میں سائنسی مضمون، فکشن، مزاح، تنقید اور تحقیق سبھی آگئے تھے۔اس میں روزمرہ اور محاورے کا فرق بھی بتایا گیا تھا اور نظم کا بھی عمدہ انتخاب تھا۔
’میں نے ایک دفعہ غور کیا کہ ایک کمال اس انتخاب کا یہ تھا کہ حافظ محمود شیرانی نے کسی شاعر کی مشہور ترین جہت کو چھوڑتے ہوئے کسی کم معروف جہت کو اس میں متعارف کروایا ہے۔ مثلاً سودا قصیدے اور غزل میں مشہور ہیں۔ انہوں نے ان کی غزل اور قصیدہ نہیں لیا بلکہ مخمس شہر آشوب لیا ہے۔ جس میں شہر کے اجڑ جانے اور زوال کا نقشہ کھینچا ہے۔
’اسی طرح نظیر اکبر آبادی نظم میں بہت مشہور ہیں ان کی غزل کو بالعموم پیش نہیں کیا جاتا۔ سرمایہ اردو میں نظیر کی جو غزل ہے وہ اتنی عمدہ ہے کہ جب میں نے خود نظیر کے پورے کلیات کا مطالعہ کیا تو دیکھا کہ نظیر کی غزل میں پوری اردو غزل فوسیلائزڈ شکل میں موجود ہے۔ اس میں ولی دکنی کا رنگ بھی آپ کو ملتا ہے اور اپنے بعد آنے والے ناسخ اور غالب کا طرز کلام بھی پہلے سے نظر آرہا ہے اور اس کے مصرعوں میں زبان اتنی ترقی یافتہ ہو چکی ہے۔
اس غزل کے ایک 2 شعر میرے ذہن میں آرہے ہیں:
وہ رشک چمن کل جو زیب چمن تھا
چمن جنبش شاخ سے سینہ زن تھا
گیا میں جو اس بن چمن میں تو ہر گل
مجھے اس گھڑی اخگر پیرہن تھا
عجیب امیج ہے۔ میں نے اتنا وائٹل امیج سچی بات ہے بہت کم دیکھا ہے۔
’یعنی وہ شخصیت جب چمن میں آئی تو چمن نے گویا اپنی ہی شاخ سے سینے پر ماتم کر دیا کہ میں تو اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہوں۔
’اس طرح اخگر پیرہن کا امیج بھی میں نے کہیں اور نہیں دیکھا۔ اخگر چنگاری کو کہتے ہیں اور پیرہن لباس ہے تو اس کے بغیر جب میں چمن میں گیا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ہر پھول ایک چنگاری ہے جو میرے لباس میں آپڑی ہے۔
’سرمایہ اردو بہت باکمال انتخاب تھا۔ میری زندگی پر اور ادبی معیارات کو بنانے میں اس کا بہت بڑا حصہ ہے‘۔
سرمایہ اردو نے رضوی صاحب کی ادبی تربیت کی تو انگریزی کے نصاب میں شامل Parkinson’s Selection of English Verse ، اخلاقی تربیت میں بڑی معاون ثابت ہوئی۔ اس کتاب کے بارے میں انہوں نے اپنا تاثر کچھ یوں بیان کیا:
’بالکل چھوٹی سی کتاب تھی لیکن میری اخلاقی تربیت میں جن کتابوں کا بڑا حصہ ہے ان میں یہ کتاب بھی شامل ہے۔ اس میں بہت خوب صورت نظمیں تھیں جو دل پر نقش ہو جاتی ہیں۔ ان میں جمالیاتی ذوق کے بارے میں نظمیں بھی ہیں، قربانی و ایثار کا سبق بھی ہے،عزم وہمت، نظم و ضبط اور اطاعت سے متعلق بھی بتایا گیا ہے۔ ان میں آئیڈیلز کی بات ہے جن کے بارے میں میں سمجھتا ہوں کہ یہ attainable نہیں ہوتے لیکن انہیں چھوڑا بھی نہیں جا سکتا۔‘
خورشید رضوی صاحب اب اسکول سے کالج پہنچتے ہیں جہاں غالب کے ساتھ ساتھ ایک اور شاعر کو انہوں نے بڑے ذوق وشوق سے پڑھا:
’گورنمنٹ کالج ساہیوال سے میں نے گریجویشن کی۔ مجید امجد اس زمانے میں ساہیوال میں تھے اور ہم نے خود ان سے ان کا کلام سنا۔ بی اے کے زمانے میں ان کی کتاب ’شبِ رفتہ‘ چھپ کر آئی جسے اتنی بار پڑھا کہ وہ یاد ہو گئی۔ دیوان غالب ہم پہلے سے پڑھ رہے تھے۔ اس طرف ایک قدیم شاعر تو دوسری طرف اپنے عہدے کے ایک بڑے شاعر مجید امجد کا مطالعہ ساتھ ساتھ چل رہا تھا‘۔
شاعری میں دلچسپی کا احوال آپ نے جان لیا۔ اب آتے ہیں نثر کی جانب۔
کالج کے دنوں میں مولا محمد حسین آزاد کی مہا تصنیف ’آب حیات‘ کے سحر میں جکڑے گئے۔ ان کے بقول ’مولانا محمد حسین آزاد نے آب حیات میں اپنے تخیل اور قلم کی قوت یک جا کرکے اردو ادب کی پوری تاریخ مرتب کی ہے۔ اگرچہ آزاد سے یہ شکایت کی جاتی ہے، اور بجا طور پر کی جاتی ہے کہ وہ انشا پرداز تو بہت بے پناہ ہیں لیکن ان کی لکھی ہوئی تاریخ کو تاریخ نہیں سمجھنا چاہیے۔ کیونکہ وہ حقائق کو اپنے تخیل سے اتنا رنگین بنا دیتے ہیں کہ وہ حقائق نہیں رہتے۔ اس لیے وہ مؤرخ نہیں کہلا سکتے البتہ انشا پرداز بہت بڑے ہیں‘۔
آزاد کی نثر کا قائل ہونا اپنی جگہ لیکن اردو نثر میں خورشید صاحب کی دانست میں خطوط غالب سے بہتر کوئی نمونہ نہیں۔
اس نثر کی خوبیوں کے بیان میں آزاد کا حوالہ بھی در آیا۔
’غالب نے فارسی نثر میں محنت بہت صرف کی لیکن میں نہیں سمجھتا کہ وہ کوئی یادگار نثر ہے جو دنیا کے ادب میں یادگار سمجھی جائے گی۔ غالب نے جس بے ساختگی سے اردو میں خطوط لکھے وہ بالکل بے مثل ہیں۔ اور اردو نثر کی بہترین صورت میرے خیال میں غالب کے اردو خطوط ہیں جن کے اندر ان کے ہاں ایفرٹ بالکل نہیں‘۔
رضوی صاحب نے سلسلہ کلام آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ’محمد حسین آزاد کی نثر بہت مانی ہوئی نثر ہے۔ لیکن اس میں کمال یہ ہے کہ اس میں بڑی ایفرٹ کی گئی ہے لیکن وہ اس میں نظر نہیں آتی۔ پسینہ صرف بہت ہوا لیکن انہوں نے سکھا دیا ہے۔غالب کے ہاں پسینہ آیا ہی نہیں۔ انہوں نے کیفیات کو جتنے مختصر لفظوں میں بیان کر دیا ہے اور جتنا تخلیقی طریقے سے ادا کیا ہے وہ اپنی جگہ کمال ہے’۔ مثلاً ایک جگہ وہ بیماری اور گراں جانی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’اتنی دیر میں اٹھتا ہوں جتنی دیر میں قدِ آدم دیوار اٹھے‘۔
اس کے اندر گراں جانی کی کیفیت کو کس قدر پُر اثر طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح کسی نے پوچھا آپ کی طبیعت اب کیسی ہے؟ تو انہوں نے کہا، میں ہنوز بیمار ہوں۔ بیمار کے لیے انجام کار یا غسل صحت ہوتا ہے یا غسل میت۔
اور اب یہ جملے دیکھیے۔ یہ تو ہم ہر ایک سے سنتے ہیں کہ فلاں چراغِ سحر ہے لیکن غالب نے اپنے بارے میں کہا کہ میں اب چراغِ سحر ہوں یا آفتابِ سرِ کوہسار۔ چراغِ سحر تو بہت سنا ہے لیکن آفتابِ سرِ کوہسار غالب نے ہی برتا ہے‘۔
خورشید رضوی صاحب کی گفتگو میں آزاد کا ذکر اس وقت بھی آتا ہے جب وہ عربی نثر میں طہٰ حسین کا نام لیتے ہیں جن کی تحریروں نے انہیں ایم اے عربی کے دوران اپنی گرفت میں لیا تھا۔ اس تجربے کے بارے میں انہوں نے بتایا:
’عربی میں اسلوب کے اعتبار سے طہٰ حسین نے بہت متاثر کیا۔ وہ نابینا تھے۔ سنہ 1973 میں ان کی وفات ہوئی۔ میں ایم اے میں داخل ہوا تو ان کی ایک آدھ کتاب نصاب میں شامل تھی۔ ان کے اسٹائل نے مجھے اتنا متاثر کیا کہ میں نے اس زمانے میں ان کی 20،25 کتابیں پڑھیں اور میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ان کی حیثیت عربی میں وہی ہے جو ہمارے ہاں مولانا محمد حسین آزاد کی ہے۔ ان کے علمی نتائج اور دلائل اتنے مضبوط نہیں ہوتے لیکن اسلوب ایسا ہے کہ وہ جو بات کہیں گے اس میں بہا کر لے جائیں گے۔ ایسے لوگ علمی تحقیق کے اعتبار سے تو خطرناک ہیں لیکن ان کا ادبی سٹائل باکمال ہے‘۔
انگریزی میں پسندیدہ لکھاریوں کی لمبی فہرست سے 2 کے بارے میں انہوں نے مختصراً بتایا:
’انگریزی میں شیکسپیئر کو بہت پڑھا۔ وہ بے مثل ہے۔ تنقید میں ہم کہتے ہیں negative capability یعنی یہ صلاحیت کہ آدمی کوئی اور چیز بن کر سوچ سکے اور اپنی نفی کر دے۔ یعنی ڈراما لکھتے وقت اگر اس نے چیونٹی کے بارے میں کچھ کہا ہے تو چیونٹی بن کر ہی سوچا ہے۔
کارلائل نے اپنی مشہور کتاب ہیرو، ہیرو ورشپ میں شیکسپیئر اور دانتے کو بطور شاعر مثالی قرار دیا ہے، اس میں اس نے کہا انڈین سلطنت ان کے ہاتھ سے جاتی ہے تو جائے ہم شیکسپیئر کو ہاتھ سے نہیں دے سکتے۔ اس کا جملہ ہے:
Indian Empire or no Indian Empire; we can not do without Shakespeare!
شیکسپیئر کے ہاں الفاظ پر بھی بڑی گرفت ہے۔
کیٹس کی شاعری بہت پسند ہے۔ اس نے 25،26 سال زندہ رہ کر ادب کو بہت کچھ دیا ہے وہ بھی 18،19 برس کی عمر میں شروع کرکے۔ وہ سرجن تھا اس لیے میڈیکل کی تعلیم کی وجہ سے اسے زیادہ فرصت نہیں ملی۔ نہ اسے شعور تھا کہ وہ اتنا بڑا شاعر ہے۔ اس نے کم عمری میں جو نظمیں لکھ دی ہیں ان کا بیان اور تاثرات بے مثل ہی‘۔
خورشید رضوی کو ایک زمانے میں سراغ رسانی کی کتابوں میں گہری دلچسپی رہی۔ شرلاک ہومز کی کہانیاں پڑھیں سو پڑھیں ان کے خالق آرتھر کونن ڈویل کی سوانح میں بھی دلچسپی رہی جس کا ایک ثبوت اس کی زندگی کے روحانی پہلو پر ان کا مضمون ہے۔
اردو میں تیرتھ رام فیروز پوری کے بڑے قائل ہیں۔ حاضرین مجلس کو انہوں نے بتایا:
’اردو میں جس شخص کو ہم نے فراموش کر دیا وہ تیرتھ رام فیروز پوری ہیں۔ ایک زمانے میں ان کے ترجمے بہت رائج تھے۔ انہوں نے اسرار اور سراغ رسانی کے انگریزی ادب سے اردو میں جو ترجمے کیے وہ باکمال تھے۔ میں نے بعض الفاظ صرف تیرتھ رام کے ہاں پڑھے ہیں مثلاً:
He was a clean shaven person.
اس کا ترجمہ انہوں نے کیا ہے:
’اس کا چہرہ بے ریش و بروت تھا‘
بے ریش و بروت کا استعمال میں نے پہلی دفعہ ان کے ترجمے میں ہی پڑھا‘۔
خورشید رضوی صاحب کے پاس کہنے کو تو ابھی بہت کچھ تھا لیکن گفتگو نے آخر کہیں تو رکنا تھا جس کے بعد حاضرین نے ان سے سوالات کرنے تھے۔
وہ یہ بات پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ کتابوں پر ہونے والی یہ گفتگو جہاں بھی ختم ہوگی ادھوری ہی ختم ہوگی۔ ہوا بھی ایسا ہی۔ لیکن جی چاہتا تھا کہ عربی کے اس عالمِ بے بدل اور اردو کے معروف شاعر سے بطرز فارسی اصرار کیا جائے کہ پر لطف بات کا دراز ہونا بے جا تو نہیں:
لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم۔