پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا دیکھنے کو ملا کہ ایک وزیرِاعظم کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک آئی اور وہ اقتدار سے فارغ ہوگیا۔
عمران خان نے آئینی تحریک کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو درست قرار دے دیا، مگر جب کوئی چارہ نہ رہا تو قومی اسمبلی سے استعفے دے کر سڑکوں پر نکل پڑے اور اپنے خلاف اس تحریکِ عدمِ اعتماد کو ملک کی فوجی قیادت، سیاستدان اور امریکا کی سازش قرار دے دیا۔ پھر ایک سال تک سڑکوں اور سوشل میڈیا پر ‘سازش’ کے کرداروں کو نشانہ بناتے رہے۔
آہستہ آہستہ صورتحال اس قدر خراب ہوئی کہ عمران خان نے جنرل قمر باجوہ کے بعد آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو براہِ راست تحریک انصاف کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور مظالم کا ذمہ دار ٹھہرا دیا۔ دوسری طرف سے بھی جواب ملا کہ انتشاری ٹولے کے ساتھ بات چیت نہیں ہوگی اور 9 مئی کے واقعات کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے معافی مانگی جائے۔
ملک میں جاری سیاسی تقسیم کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ حکومت کی کوشش ہے کہ بیرونی سرمایہ کاروں کو دعوت دی جائے کہ یہاں سرمایہ کاری کریں۔ سعودی عرب نے بھارت، مصر اور دیگر ممالک میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری شروع کردی ہے جبکہ پاکستان تگ ودو میں ہے کہ کسی طرح سعودی عرب سمیت بڑے ممالک پاکستان میں بھی مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کا آغاز کریں۔
حال ہی میں ایک مغربی ملک کے سفارتکار نے بتایا کہ انہیں پاکستان میں جاری سیاسی کشیدگی سے خاصی تشویش ہے اور جب تک حالیہ سیاسی عدم استحکام ختم نہیں ہوتا سرمایہ کاری کی امیدیں پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتیں۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان کو بھی اندازہ ہے کہ انہیں زیادہ عرصے تک جیل میں رکھنا اور ان کی پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف مقدمات جاری رکھنا حکومت کے لیے ممکن نہیں رہے گا۔ تحریک انصاف نے مغربی ممالک کے سفارتکاروں سے روابط بھی بڑھانے شروع کردیے ہیں اور انہیں امید ہے کہ اس کے بہتر نتائج نکل سکتے ہیں۔
ایسی صورتحال میں عمران خان نے معافی مانگنے سے صاف انکار کردیا ہے بلکہ سابق صدر عارف علوی کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے لوگوں کے ساتھ زیادتیاں ہورہی ہیں اور انہی سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
9 مئی واقعات کے بارے میں ایک طرف پارٹی کا مؤقف ہے کہ اسٹیبلشمنت کی سوچی سمجھی سازش کے تحت یہ سارا منصوبہ بنایا گیا تاکہ تحریک انصاف کو دبایا جاسکے جبکہ دوسری جانب عمران خان خود کہتے رہے کہ ان کی گرفتاری پر عوام نے ردِعمل دیا۔
ایک عرصے سے تحریک انصاف کا سوشل میڈیا 9 مئی واقعات پر انتہائی خطرناک مہم چلا رہا ہے اور ایک سال پورا پونے پر یہ مہم مزید تیز ہوگئی۔ اس کے جواب میں فوجی ترجمان تحریک انصاف کے بیانیے کا جواب دینے کے لیے میدان میں آئے اور مذاکرات کی خبروں پر پانی پھیر دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ کسی صورت تحریک انصاف سے بات چیت نہیں ہوگی۔ تحریک انصاف کے حامی تجزیہ کار ایک عرصے سے مختلف روابط کا عندیہ دیتے رہے تاکہ پارٹی کے کارکنان میں یہ تاثر رہے کہ عمران خان کے سخت گیر رویے نے طاقتور حلقوں کو مذاکرات پر مجبور کردیا ہے۔
عوام پریشان ہیں کہ دونوں طرف سے تندوتیز لفظی حملے جاری ہیں اور عمران خان جیل میں ہوتے ہوئے بھی اپنا بیانیہ عوام تک پہنچانے میں کامیاب ہیں اور ان کے سوشل میڈیا کا مقابلہ کرنا حکومت اور اداروں کے بس میں نہیں۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ‘ایکس’ بند کرنے سے بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جاسکے جس کے بعد نئی اتھارٹی قائم کی جارہی ہے تاکہ پراپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکے۔
عمران خان معافی نہیں مانگیں گے اور نہ ہی فوج پیچھے ہٹنے کا ارادہ رکھتی ہے ایسی صورتحال میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔
عمران خان نے صاف کہا ہے کہ وہ حکومتی پارٹیوں سے مذاکرات کسی صورت نہیں کریں گے بلکہ ان کی کوشش ہے کہ اس وقت محمود اچکزئی کے بعد مولانا فضل الرحمان ایسے رہنما ہیں جو ان کی حکومت اور فوج مخالف مہم میں کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔
اس وقت ملک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے کہ معاشی استحکام وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکا ہے اور سیاسی عدم استحکام اس کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔
گزشتہ چند سالوں میں بڑی تعداد میں مقامی سرمایہ کاروں نے بیرون ملک دولت منتقل کی تاکہ وہاں مختلف منصوبوں میں سرمایہ کاری کرسکیں۔ غیرملکی سفارتکار چاہتے ہیں کہ پہلے حکومت ایسے سرمایہ کاروں کو راغب کرے کہ وہ اپنی سرمایہ کاری واپس پاکستان لائیں جس کے بعد بیرونی سرمایہ کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔
سیاسی کشدگی کم ہوتی دکھائی نہیں دیتی مگر لوگ نظریں لگائے بیٹھے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔