لاہور میں میٹرو بسیں پہلے سے ہی سڑکوں پر رواں دواں ہیں، اورینج لائن ٹرین بھی لاہور کے شہریوں کے لیے دستیاب ہے، میٹرو اسٹیشنز پر جانے کے لیے شہر بھر میں ’سپیڈو بسیسز‘ بھی حکومت پنجاب کے تحت لاہور میں چل رہی ہیں تاکہ لوگ با آسانی اپنا سفر کر سکیں۔
پیٹرول، ڈیزل کی قمیتوں میں اضافے کے باعث اب حکومت پنجاب لاہورکے شہریوں کے لیے الیکٹرک بسیں چلانے کے منصوبہ پر کام شروع کرنے جارہی ہے۔
صوبائی وزیر برائے ٹرانسپورٹ بلال اکبر نے پنجاب اسمبلی کو بتایا کہ ہم لاہور میں الیکٹرک بسیں چلانے جارہے ہیں لاہور میں رواں سال نومبر دسمبر میں 27 الیکٹرک بسیں سڑکوں پر ہوں گی۔
انہوں نے بتایا کہ مختلف اضلاع میں دیگر ہائبرڈ بسیں بھی چلائی جائیں گی جن سے مسافروں کو فائدہ ہوگا، مسافروں کو 2 سو سے زیادہ سپیڈو بسوں کے ذریعے سبسڈی دی جا رہی ہے، 10 لاکھ لوگوں کو روزانہ ٹرانسپورٹ کی سہولت مل رہی ہے لیکن بس اسٹاپ کی حالت انتہائی خستہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ راولپنڈی کے عوام کا حق تھا کہ انہیں وہاں 100 بسوں کا تحفہ دیا گیا ہے اگلے مرحلے میں پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر کریں گے، پچھلے 5 سال کا حساب دینا ہوگا، 10 لاکھ لوگوں کو سہولت دینے والے نظام کو کیوں ناکام بنانے کی کوشش کی گئی۔
ان کاکہنا تھا کہ سپیڈو بسسز کا کرایہ 30 روپے فی مسافر ہے، لاہور میں ہی نہیں بلکہ پنجاب کے بڑے شہر وں میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام متعارف کروایا گیا ہے، باقی شہروں میں بھی سرکاری بسوں پر لاہور جیسی ہی سبسڈی ہے۔
تمام سہولیات لاہور کے لیے ہی کیوں؟
صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ کے الیکٹرک بسوں کے اعلان کے بعد اپوزیشن رکن رانا آفتاب نے کہا کہ حکومت سفری سہولتوں کے لیے بسوں کا نظام تو متعارف کروا رہی ہے لیکن لاہور سمیت تمام بڑے شہر وں میں ٹریفک جام رہتی ہے، یہ بسیں کن سڑکوں پر چلائیں گے ؟، پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام ختم ہو کر رہ گیا ہے، آئے روز چنگ چی کے حادثات ہو رہے ہیں۔
اپوزیشن کے ایک اور رکن اسمبلی بریگیڈیئر ریٹائرڈ مشتاق احمد نے راولپنڈی میں بسوں کے فقدان پروزیر ٹرانسپورٹ پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ بسوں کا تمام پیسہ صرف لاہور پر ہی خرچ کیاجارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لاہور کے علاوہ تمام شہر ٹرانسپورٹ کی سہولت سے محروم ہیں، صوبائی فنانس ایوارڈ کا تمام پیسہ بھی لاہور پر خرچ کیاجارہا ہے جس سے چھوٹے علاقوں میں محرومیت کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔