آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ کے آغاز میں تقریبا 2 ہفتوں کا وقت رہ گیا ہے اور اس میگا ایونٹ کے لیے ٹیموں کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ قومی کرکٹ ٹیم بھی آئرلینڈ کے خلاف 3 ٹی 20 میچوں پر مشتمل سیریز 1-2 سے جیتنے کے بعد انگلینڈ پہنچ گئی ہے۔
انگلینڈ کے خلاف 4 ٹی 20 پر مشتمل سیریز کا آغاز 22 مئی سے ہوگا۔ یہ سیریز پاکستانی ٹیم کا ورلڈ کپ سے پہلے آخری امتحان ہے۔ غلطیاں کرنے کا بھی ٹیم کے پاس یہ آخری چانس ہے۔ اس سیریز کے بعد قومی ٹیم کو ڈائریکٹ ورلڈ کپ کے میچ ہی کھیلنے ہیں کیونکہ اس سیریز کی وجہ سے انگلینڈ اور پاکستان دونوں کو وارم اپ میچز نہیں دیے گئے ہیں۔
عمومی طور پر ورلڈ کپ سے عین پہلے کھیلی جانے والی سیریز کو ٹیمیں ورلڈ کپ کی تیاری کا حصہ سمجھتی ہیں اور ان سیریز میں ورلڈ کپ سے پہلے کئی کمبینیشنز کو آزمایا جاتا ہے۔ اسی طرح پاکستانی ٹیم کے پاس بھی میگا ایونٹ میں جانے سے قبل یہ آخری اور سنہری موقع ہے کہ جتنے کمبینیشنز آزمانے ہیں، اور جتنی بھی غلطیاں کرنی ہیں، کر لیں کیونکہ اس کے بعد ورلڈ کپ میں غلطیاں کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔
پاکستان نے آئرلینڈ کے خلاف سیریز تو جیتی ہے لیکن میں قومی ٹیم کی کارکردگی سے دیگر پاکستانیوں کی طرح مطمئن نہیں ہوں۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ دوسرے اور بالخصوص تیسرے میچ میں ہماری ٹیم نے آئرش ٹیم کو مکمل قابو میں رکھا لیکن پہلے میچ میں لگنے والی ضرب اتنی سخت تھی کہ دونوں میچوں میں جیت کی ویسی خوشی نہ ہوئی جیسی ہونی چاہیے تھی۔
آئرلینڈ کی کنڈیشنز ویسٹ انڈیز سے تو مختلف ہی تھیں لیکن امریکہ کے سٹیڈیمز میں کنڈیشنز آئرلینڈ کی کنڈیشنز سے ملتی جلتی ہی ہوں گی۔ پاکستانی ٹیم کے پہلے مرحلے کے میچ امریکہ میں ہیں اور اُن میں سے 2 میچز نیو یارک کے نساؤ کاؤںٹی سٹیڈیم میں ہیں جو کے ایک عارضی سٹیڈیم ہے جس میں ڈراپ ان پچز کا استعمال کیا جائے گا۔ نساؤ کاؤنٹی سٹیڈیم کی پچز آسٹریلوی سٹیڈیم ایڈیلیڈ اوول کی طرز پر بنائی گئی ہیں اور اُن پچز کے کیوریٹر بھی ایڈیلیڈ اوول کے کیوریٹر ہی ہیں۔ لہذا ایک بات طے ہے کہ نساؤ کاؤنٹی سٹیڈیم میں ہونے والے میچ ہائی سکورنگ میچ ہوں گے اور ہائی سکورنگ میچ ہی اپنی ٹیم کا مسئلہ ہیں۔
پاکستان نے آئرلینڈ کے خلاف پہلے ٹی20 میچ میں بیٹنگ کرتے ہوئے آئرلینڈ کو 183 رنز کا ٹارگٹ دیا تھا جسے میزبان ٹیم نے 5 وکٹوں کے نقصان پر آسانی سے پورا کر لیا تھا۔ پاکستان کو پہلے بیٹںگ کرتے ہوئے یہ مسئلہ آنا ہی آنا ہے کیونکہ ہماری ٹیم ابھی بدقسمتی سے 180 کو ’پار سکور‘ سمجھ کر بیٹھی ہے۔ جدید ٹی 20 کرکٹ میں پار سکور 200 رنز ہیں۔ لہذا انڈیا کے خلاف نیو یارک میں ہونے والے میچ میں اگر پاکستانی ٹیم نے پہلے بیٹنگ کی تو اُس گراؤنڈ پر 200 کا ہدف تو ہر صورت درکار ہی ہوگا۔
پاکستانی ٹیم عام طور پر کبھی بھی کسی بھی آئی سی سی ایونٹ میں بطور ریڈ ہاٹ فیورٹ نہیں گئی کیونکہ ورلڈ کپ سے قبل ہونے والی سیریز میں ٹیم کی کارکردگی ہمیشہ خراب ہی رہی ہے۔ ہم ورلڈ کپ سے پہلے سیریز عام طور پر ہارتے ہیں اور پھر ورلڈ کپ میں شروع کا ایک آدھ میچ ہارنے کے بعد درمیان میں ’پِیک‘ پکڑتے ہیں اور پھر سیمی فائنل تک چلے جاتے ہیں۔
انگلینڈ کے خلاف ٹی20 سیریز ورلڈ کپ سے پہلے آخری موقع تو ضرور ہے لیکن یہ سیریز ہرگز آسان نہیں ہوگی کیونکہ انگلینڈ کی مکمل ٹیم اس سیریز میں کھیلے گی جس کی وجہ سے انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کھیلنے والے انگلش کھلاڑی لیگ ادھوری چھوڑ کر وطن واپس روانہ ہوگئے ہیں۔
میری ذاتی رائے میں قومی ٹیم کو اس سیریز میں سارے تجربات کر لینے چاہیں۔ پہلے بیٹنگ کریں تو 200 رنز ضرور بنائیں جبکہ بعد میں بیٹنگ کریں تو 200 رنز کا ہدف ضرور حاصل کریں۔ انگلینڈ کی کنڈیشنز بھی روایتی سِیم اور سوئنگ والی ہونے کی بجائے فلیٹ ٹریکس والی ہوں گی جہاں رنز کے انبار ہی لگیں گے۔ اگر بابر اعظم نے اوپننگ کرنی ہے تو ایک آدھ میچ میں یہ آزما لیں اور اگر فخر زمان کو چوتھے نمبر پر کھلانا ہے تو یہ بھی چیک کر لیں۔ اس سیریز میں پاکستان کے نئے کوچ گیری کرسٹن بھی ٹیم کو جوائن کر لیں گے تو اُن کی حکمت عملی کا بھی 4 میچوں میں بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔
وہ کہتے ہیں ناں کہ جنگ سے قبل بہائے جانے والا پسینہ جنگ کے دوران بہنے والے خون سے بہتر ہے۔ اسی لیے گیری کرسٹن اور بابر اعظم جن جن مسائل کو سدھارنا چاہتے ہیں اُس کے لیے اُن کے پاس وقت صرف 4 میچوں کا ہی ہے کیونکہ ورلڈ کپ کے دوران کسی بھی غلطی اور تجربے کی گنجائش نہیں ہوتی۔
یہ نہ ہو کہ ہم ورلڈ کپ سے پہلے اپنے روایتی انداز کو ہی اپناتے ہوئے کھیلتے رہیں اور پھر ورلڈ کپ میں ہمیں نئی حکمت عملیاں یاد آئیں جب ان سے فائدہ اٹھانے کا وقت گزر چکا ہو۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔