پرانے بابوں میں انگریز کے بارے میں غلط یا صحیح مشہور تھا کہ وہ جو بھی منصوبہ بناتے ہیں، اگلے کم از کم پچاس برس کی دنیا میں تمام ممکنہ تبدیلیوں کو سامنے رکھ کے بناتے ہیں۔ہم نے ان انگریزوں سے نہ صرف نجات پائی بلکہ ترکے میں چھوڑے کئی ادارے، عادات و روایات اپنانے کی بھی کچی پکی کوشش کی مگر انگریز سے دور رس منصوبہ بندی اور خود احتسابی کی عادت نہ لے سکے۔
چنانچہ ہم ہر منصوبہ مکمل خوش نیتی کے ساتھ شروع تو کرتے ہیں مگر پلاننگ، ہوم ورک اور تسلسل کے امکانات کو سنجیدگی سے خاطر میں لانے کے بجائے ’اللہ مالک ہے‘ کا نعرہ لگا کے بے خطر کود جاتے ہیں اور جب اپنے ہی کھردرے آئیڈیے کے ہاتھوں چند دنوں میں زخمی ہو جاتے ہیں تو پھر اسی سے ملتا جلتا اگلا منصوبہ اتنے ہی جوش و خروش کے ساتھ شروع کر دیتے ہیں۔یوں ہم پچھلے چھہتر برس سے ترقی کے خطِ مستقیم میں بڑھنے کے بجائے گول گول گھوم رہے ہیں۔
دائرے کا سفر بھی خوب رہا
درمیاں درمیاں میں تھا ہی نہیں
میں نے پہلی بار گیم چینجر کا لفظ انیس سو بانوے میں سنا جب نواز شریف کے دورِ اول میں ییلو کیب اسکیم اس عزم کے ساتھ شروع ہوئی کہ بس اب پڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں کے دلدر دور ہو جائیں گے۔ اس بے روزگار کش جہاد میں بینکوں کے بل بوتے پر لگ بھگ پندرہ ارب روپے کی بارہ اقسام کی پچاس ہزار سے زائد گاڑیاں امپورٹ کی گئیں۔ ان پر پیلا رنگ کیا گیا اور دس فیصد ایڈوانس رقم کے بدلے نوجوانوں کے حوالے کر دی گئیں۔
کسی نے نہ سوچا کہ جو پہلے ہی بے روزگار ہے، وہ ماہانہ اقساط کیسے چکائے گا۔ چنانچہ ستر فیصد کیب مالکان ڈیفالٹ کر گئے اور دو برس بعد معین قریشی کی نگراں حکومت نے یہ اسکیم ہی لپیٹ دی۔شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جس نے ییلوکیب کا قرضہ سو فیصد نپٹایا ہو۔
بہت سے لوگ جنہیں ان ٹیکسیوں کی ہرگز ضرورت نہیں تھی مگر ان کی زندگی کا نصب العین ہی یہی ہے کہ ” ادھار میں سانپ بھی ملے تو انکار نہ کرو ”۔ ایسے لوگ بعد میں پیلی ٹیکسیوں پر دیگر رنگ چڑھا کے انہیں نجی استعمال میں لے آئے۔ بینک بھی تھک گئے کیونکہ ایک دو پر تو قرض کی نالش ہو سکتی ہے، ہزاروں پر کیسے ہو سکتی ہے؟
میں ایک وکیل کو ذاتی طور پر جانتا ہوں جس نے اپنے ایک ملازم کو بے روزگار ظاہر کر کے اس کے نام پر پیلی ٹیکسی نکلوائی ۔چند برس ذاتی استعمال میں رکھی اور پھر اسکریپ ڈکلئیر کر کے بیچ دی۔
دو ہزار بارہ میں شہباز شریف کی وزارتِ اعلیٰ نے ماضی کے تجربات سے نہ سیکھتے ہوئے نا صرف ییلو کیب اسکیم زندہ کرنے کی نیم دلانہ کوشش کی بلکہ انہی کے دور میں سستی روٹی اسکیم کے تندور میں اربوں روپے بطور ایندھن پھونکنے کے باوجود موجودہ پنجاب حکومت نے دوبارہ سستی روٹی اسکیم گلے میں ڈال لی ہے ۔
اس قوم پر دوسرے گیم چینجر کی بجلی انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز ( آئی پی پیز ) کی شکل میں انیس سو چھیانوے میں بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے نام پر گری۔ ایسی شرائط پر معاہدے کئے گئے کہ آئی پی پیز کی چاندی ہو گئی اور عام آدمی کے گلے میں بجلی کا یونٹ چھچھوندر بن گیا۔جتنی بجلی درکار تھی اس سے دوگنی کے ٹھیکے دے دئیے گئے ۔ایک سو میں سے ساٹھ یونٹ خریدے گئِے اور باقی چالیس یونٹ جو نہ کبھی بنے نہ استعمال ہوئے ان کی قیمت بھی کپیسٹی چارجز کی صورت میں ہمارے گلے میں آ گئی اور قومی دیوالیہ لغت میں ایک اور اصطلاح شامل ہو گئی ” سرکلر ڈیبٹ ”۔
اس وقت ریاست بجلی کمپنیوں کی ڈھائی ٹریلین روپے کی مقروض ہے۔ اوپر سے ایک اور گیم چینجر سولر پاور کی شکل میں چھوڑ دیا گیا۔
جس طرح ایک زمانے میں فون کا کنکشن مل جانا خوش قسمتی کی علامت تھا۔ آج یہ حال ہے کہ نئی پود کو یہی نہیں معلوم کہ لینڈ لائن کس پنچھی کا نام ہے۔ موبائیل کنکشن ٹکے سیر دستیاب ہیں۔
اسی طرح سولر انرجی کے انقلاب نے اب ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ وہی سرکار جو سولر انرجی کے فروغ کی وکیل تھی اب یہ سوچ سوچ کر خوفزدہ ہے کہ جب سستی سولر ٹیکنالوجی کے سبب ہر ماجھا ساجھا سرکاری بجلی سے اگلے کچھ ہی وقت میں آزاد ہو جائے گا اور اتنی بجلی بنانے لگے گا کہ حکومت کو نیٹ میٹرنگ کے ذریعے بیچے گا تو آئی پی پیز سے کئے گئے معاہدوں کا کیا ہوگا جنہوں نے پاکستان کے توانائی سیکٹر کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح چوس لیا ہے ۔
جب نوے کے عشرے میں آئی پی پیز کو دافع بلیات بتا کے ایک ٹانگ پر ناچا جا رہا تھا تب کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ اگلے تیس برس میں تیل، گیس اور کوئلے سے پیدا ہونے والی مہنگی اور آلودہ بجلی کے خریدار سورج کی روشنی کے طرفدار ہو جائیں گے اور یہ انقلاب اسی طرح روایتی بجلی کو روند کے آگے نکل جائے گا جس طرح موبائیل فون کے سیلاب نے لینڈ لائن کو کچل ڈالا۔
ایک اور گیم چینجر سی این جی اسکیم تھی تاکہ مہنگے پٹرول سے نجات حاصل ہو سکے۔ مشرف دور میں سی این جی اسٹیشنز کھولنے کے لیے رعائیتی قرضے جاری کئے گئے۔آلات پر سے ڈیوٹی کم کر دی گئی۔ سی این جی کنورژن کے لیے کار مالکان اور پبلک ٹرانسپورٹ کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ مقامی طور پر سی این جی کٹس کی ایک متوازی صنعت وجود میں آ گئی۔
شروع شروع میں سی این جی اور پٹرول کی قیمت میں ستر اور تیس کا تناسب تھا۔رفتہ رفتہ یہ فرق کم ہوتا چلا گیا۔ اسکیم شروع کرتے وقت کسی نے نہ سوچا کہ مقامی گیس کے ذخائر زیادہ سے زیادہ پچیس برس اور ساتھ دیں گے اور ایل این جی ہمیشہ پٹرول کی طرح باہر سے منگوانا پڑے گی اور اس کی قیمت بھی کرنسی کی قدر کے اعتبار سے اوپر نیچے ہوتی رہے گی۔
اب یہ حال ہے کہ سی این جی کی ایک ایک مہینے کی لوڈّ شیڈنگ ہوتی ہے۔ اس صنعت میں تازہ سرمایہ کاری بہت پہلے ہی رک گئی اور سی این جی اسٹیشن جتنی تیزی سے لگ رہے تھے اب اتنی ہی تیزی سے بند ہو رہے ہیں۔ ہائبرڈ اور بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے موجودہ اور آنے والے دور نے سی این جی کی رہی سہی اوقات بھی ختم کر دی۔ اربوں روپے ٹھوس سے مایا میں تبدیل ہوئے بغیر گیس بن کے اڑ گئے۔( مایا سے مراد دھن دولت ہے )۔
ایک اور گیم چینجر پاک ایران گیس پائپ لائن کی شکل میں بلوچستان کے بیابانوں میں پچھلے ایک عشرے سے خراٹے بھر رہا ہے ۔
ایک اور گیم چینجر سی پیک بھی ہے مگر اس کے بارے میں کچھ بھی کہتے ہوئے فی الحال پر جلتے ہیں۔
مجھے چھوڑ دے مرے حال پر ترا کیا بھروسہ اے چارہ گر
یہ تری نوازشِ مختصر مرا درد اور بڑھا نہ دے
( شکیل بدایونی