وزیر اعظم آزاد کشمیرچوہدری انوار الحق نے کہا ہے کہ آزاد کشمیر لانگ مارچ میں شر پسند عناصر بھی داخل ہوئے ’ایکشن کمیٹی‘ آج جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کر رہی ہے، پہلے یہ مطالبہ کیوں نہیں کیا؟۔ جوڈیشل کمیشن کی ضرورت تب ہو گی جب ورثا کہیں گے یا پولیس کی تحقیقات پر مکمل عدم اعتماد سامنے آئے گا۔
مزید پڑھیں
بدھ کو ایک ٹی وی انٹرویو میں وزیر اعظم آزاد کشمیر نے کہا کہ آزاد کشمیر میں عوامی مطالبات پر پہلے ہی کابینہ کمیٹی نے ایکشن کمیٹی سے بات شروع کر دی تھی، عوامی مطالبہ عوامی طاقت سے حل ہوا تو کوئی برائی نہیں ہے، لیکن لانگ مارچ میں شر پسند عناصر بھی داخل ہوئے۔
چوہدری انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ عوامی ایکشن کمیٹی آزاد کشمیر کی تاریخ میں کبھی بھی سیمی فورسز یا پولیس نے کسی احتجاجی تحریک یا مارچ پر تشدد نہیں کیا، صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے آزاد کشمیر پولیس موجود تھی، ایکشن کمیٹی کے لانگ مارچ میں کچھ شر پسند عناصر گھس آئے تھے، جب ایکشن کمٹی کے مطالبات تسلیم کر لیے گئے تھے تو پھر مظفر آباد پر یلغار کا کیا مطلب بنتا تھا؟۔
وزیر اعظم آزاد کشمیر نے کہا کہ مظفرآباد کے مقام پر ویڈیو پیغام دینے کی بجائے چمن کوٹ کے مقام پر یہ پیغام جاری کر دیا جاتا تو جانی نقصان نہ ہوتا اور افراتفری بھی نہ پھیلتی۔
ایک سوال کے جواب میں انوار الحق نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کے قیام کی تجویز تب زیر غور آ سکتی ہے جب جاں بحق افراد کے ورثا کا مطالبہ سامنے آئے گا یا پھر پولیس کی تحقیقات پر مکمل عدم اعتماد کا اظہار کر دیا جائے گا۔
چوہدری انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ لانگ مارچ کے دوران جو بھی واقعات ہوئے ہیں، ان کی تحقیقات ہر حال میں کی جائے گی، میرا سوال ہے کہ بدھ کو عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے سامنے آنے والا جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ 13 مئی کو سامنے کیوں نہیں آیا؟، یہ مطالبہ 15 مئی کو کیوں نہیں کیا گیا؟، جب عوامی مطالبات پورے ہو گئے تھے اور یہ طے پایا تھا کہ مطالبات پورے ہو جائیں گے تو اس عوامی ایکشن کمیٹی کو تحلیل کر دیا جائے گا، اب ایسا کیوں نہیں ہو رہا ہے؟۔
چوہدری انوار الحق نے مزید کہا کہ اس کے پیچھے اگر سیاست کارفرما ہے یا کسی نے سیاست کرنی ہے تو پھر وہ سیاسی جماعت کا روپ دھار کر میدان میں آ جائے۔
ایک اور سوال کے جواب میں وزیر اعظم آزاد کشمیر نے کہا کہ جو پولیس افسر تبدیل کیے گئے انہوں نے گرڈ اسٹیشن کا بھرپور دفاع کیا، یہ انتظامی معاملات ہیں اس میں بد اعتمادی کی کوئی بات نہیں ہے بل کہ ایمرجنسی صورتحال کی وجہ سے کمشنر اور ڈی آئی جی کو تبدیل کیا گیا۔
ایک اور سوال کے جواب میں چوہدری انوار الحق نے کہا کہ عوامی ایکشن کمیٹی کا معاملہ اس وقت سنگین ہوا جب گزشتہ سال بجلی کے بلوں میں فوری اضافہ ہوا، بجلی کے بلوں میں اضافہ وفاق کا مسئلہ ہے، آزاد کشمیر کا معاملہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ سڑک اچانک گرم نہیں ہوئی، گزشتہ جولائی یا اگست کی سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں میری گفتگو کی ریکارڈنگ سن لی جائے، ان میں ہماری حکومت کا یہی مؤقف تھا کہ بجلی کی قوت خرید پر 5 یا 10سالوں کے لیے قیمتوں کو فکس کر دیا جائے، اس عرصے میں آزاد کشمیر بجلی کی پیداوار میں خود کفیل ہو جائے گا۔