ایک کافی معقول شخص سےکئی مہینوں بعد ملاقات ہوئی۔ سلام کے بعد بجائے حال احوال پوچھنے کے، فرمانے لگے، کیا آپ نے ہیرا منڈی دیکھ لی؟ میں سٹپٹاکر رہ گیا، پھر سوچا شاید فلم کی دنیا میں کوئی ایسا انقلابی کام ہوا ہے جسے دیکھنا بہت ضروری ہے۔ خیر، چند روز قبل ہیرا منڈی دیکھ لی، مطلب سنجے لیلا بھنسالی کی تصوراتی ہیرا منڈی۔
اس وقت یہ سیریز ٹاپ ٹرینڈکر رہی ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو اس کی تیرہ زبانوں میں ڈبنگ ہوئی ہے، دوسری وجہ خود سنجے لیلا بھنسالی کا نام ہے۔ میں اس سیریز کا تعارف نہیں کرا رہا،بس ایک ناظر کے تاثرات بیان کررہا ہوں۔ مجھے کسی بھی فلم یا سیریز کےپہلے چند مناظر سے ہی فلم کے اچھا یا برا ہونے کا اندازہ ہو جاتا ہے اورمیرا یہ تاثر اکثر درست ثابت ہوتا ہے۔ میرے لیے یہ سیریز دیکھنا خوشگوار تجربہ رہا، اس کے مناظر سنجے لیلا بھنسالی کے ذوقِ جمالیات کی بھرپور عکاسی کر رہے ہیں،لیکن اس دوران کئی پرانی فلموں کی کہانیاں، مکالمے، مناظر، گانے اورٹھمریاں یاد آئیں جن سے اس سیریز میں یقیناً استفادہ کیا گیا ہے۔
ہیرامنڈی کی بیشتر کاسٹنگ عمدہ ہے۔ منیشا کوئرالہ کی اداکاری نے متاثر کیا اور جوں جوں کہانی آگے بڑھی اس کی اداکاری کا نقش مزید گہرا ہوتا گیا۔ ہالی ووڈ میں تو نوجوان اداکار بڑی عمر کے کردار اداکرتے رہتے ہیں لیکن بھارتی اداکاروں خاص طور پر ہیروئنوں میں یہ رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہ جوانی ڈھل جانے کے بعد ہی اس قسم کے کردارادا کرتی ہیں۔ منیشا نے حضور کا یہ کردار خوبی سے نبھایا۔ سوناکشی سنہا نے بھی عمدہ اداکاری کی۔ رچا چڈھا نے لجو کا کردارخوبی سے نبھایا لیکن عالم زیب کا مرکزی کردار ادا کرنے والی لڑکی شرمین سہگل نے زیادہ متاثر نہیں کیا۔ کوئی جی اٹھے کہ مر جائے، اس کے چہرے کے تاثرات نہیں بدلتے۔ دکھایا گیا ہے کہ وہ شاعرہ بھی ہے،تو ایک مماثلت یہ یاد آئی کہ ریکھا بھی امرائو جان ادا میں شاعرہ تھی لیکن اس کی اداکاری کی سطح ہی اور تھی۔ اس سب شور شرابے میں ایک اداکار کی اس طرح پزیرائی نہیں ہورہی اور وہ ہے اندریش ملک، جس نے استاد کے کردار میں جان ڈال دی۔
مرکزی کردار ادا کرنے والی شرمین سہگل کے حوالے سے یہ بات بھی کی جا رہی ہے کہ وہ ہدایت کار کی رشتے دار ہے۔ ہیرامنڈی جیسے ماحول سے تعلق رکھنے والی عورتوں کے خدوخال میں ایک خاص طرح کی کشش دکھائی جاتی ہے۔ حسین اور پرکشش ہونے سے میری مراد ایک مجموعی تاثر ہے۔ وہ نزاکت اور ادا جو اس سے قبل طوائف کا کردار ادا کرنے والی مدھو بالا، مینا کماری، ریکھا یا مادھوری میں دکھائی دی، عالم کے کردار میں عنقا ہے۔
اس سیریز پر پرانی، مقبول اور بڑی فلموں امرائو جان ادا، پاکیزہ اور مغل اعظم کے اثرات بہت واضح ہیں۔ کچھ مقامات پر تو کہانی اورمکالمے تک ملتے جلتے ہیں۔ جیسا کہ طوائفوں کے معاملات، ان کا ‘شریف النفس’ ہونا، گھر بسانے کے خواب دیکھنا، نوابوں کا طوائفوں کو قبول نہ کرنا اور ان کے بچوں کا دراصل نوابوں کے بچے ہونا وغیرہ۔
پرانی فلموں کی ٹھمریاں بھی اس سیریز میں شامل کی گئی ہیں، ایک دو نئے گانے بھی ہیں لیکن ’نجریا کی ماری‘ یا پھر ایک پرانا گانا ’پھول رہی سرسوں‘ کا جواب نہیں۔ نئے گانے یا ٹھمریاں پرانوں کے سامنے بہت ہی پھیکی لگیں۔ یہ اس سیریز میں کمی تھی۔ جب اتنا بڑا بجٹ ہو اور ایک سے بڑھ کر ایک موسیقار دستیاب ہو تو نئی شاندار دھنیں بنوا کر اس سیریز کو شاہکار بھی بنایا جا سکتا تھا۔ فلم دیوداس کی طرح، کہ جس میں شامل ہونے والے نئے شاندار گانے سدا بہار ٹھہرے، یہ فلم بھی سنجے لیلا بھنسالی نے ہی بنائی تھی۔
ہیرا منڈی میں رچا چڈھا نے مغل اعظم فلم کے گانے ’موہے پنگھت پہ‘ میں مدھو بالا کے چلنے کا انداز اپنایا۔ اسی طرح فلم پاکیزہ کے گانے’تیر نظر دیکھیں گے‘ میں ٹوٹے ہوئے کانچ پر مینا کماری کے رقص کو سوناکشی سنہا نے دہرایا۔ جیسے کوئی شعر سن کر یا پڑھ کر کوئی اور شعر یاد آنا اول الذکر شعر کے لیے اچھی بات نہیں، ایسے ہی کسی کی چال، کسی کے رقص کی حرکات، یا کسی گانے سے کچھ ملتا جلتا گانا یاد آنا بھی کوئی اچھا شگون نہیں ہوتا۔ یہاں تو کئی چیزیں ہو بہو نقل کی گئی ہیں۔
سنجے کی ہدایت کاری کا میں مداح ہوں لیکن اس سیریز میں یوں لگا جیسےایک بڑا آدمی کام کرتے کرتے تھک گیا ہے یا پھر اس کی وجہ ہیرا منڈی کا فلم کی بجائے طویل سیریز ہونا ہے جو ظاہر ہے لمبی سانس کا کھیل ہے۔ کہانی بھی بہت کلیشے ہے، اگرچہ یہ رعایت دی جا سکتی ہے کہ اس قسم کے بازار کی زیادہ تر کہانیاں ایسی ہی ہوسکتی ہیں، لیکن یہ سیریز بھارت میں بنی جہاں اس وقت کم بجٹ میں نئے اور اچھوتے موضوعات پر شاندار فلمیں بن رہی ہیں، اور یہ سیریز تھی بھی لاہور کی ہیرا منڈی کے متعلق۔ جب اتنی آزادیاں میسر تھیں تو پھر کچھ نیا کیوں نہیں بن سکا؟
اس سیریز میں زبان وبیان، شاعری اور ایڈٹنگ کی کئی غلطیاں ناظر کی طبع پر ناگوار گزرتی ہیں تو کچھ مقامات پر سچویشن اور مکالمے میں بھی مسائل محسوس ہوتے ہیں۔ جیسا کے ’تاجداربلوچ‘ جب تعلیم مکمل کر کے وطن واپس آتا ہے تو اس کی دادی چھوٹتے ہی کہتی ہے، تمھیں ادب آداب سیکھنے کے لیے ہیرا منڈی جانا پڑے گا اور وہ جواب میں ہیرا منڈی اور طوائفوں کے بارے میں اپنے جذبات سے آگاہ کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے کوئی پس منظر تخلیق کیا جانا چاہیے تھا۔ مثلاًوہ نوجوان زبان وبیان کی، ادب آداب کی کوئی غلطی کرتاجس پر اسے کہہ دیا جاتا کہ تم جب ہیرامنڈی جائو گے تومعلوم ہو گا کہ ادب آداب کیا ہوتے ہیں، اور تاجدار بلوچ جواب میں ہیرا منڈی اور طوائفوں سے اپنی نفرت کا اظہار کرتا۔
بھارتی فلمی صنعت اس وقت اپنے عروج پر ہے لیکن حیرت ہوتی ہے کہ تھوڑے سی رقم خرچ کر کے زبان کی درستی اورشاعری کی درست قرات کے لیے کسی سے رہنمائی کیوں نہیں لی جاتی۔ ہالی ووڈ یا مغرب کی فلمیں دیکھیں تو ان میں درج بالا معاملات میں حیرت انگیز حد تک احتیاط کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔