ہتک عزت کا بل 20 مئی کو پنجاب اسمبلی سے پاس کروایا گیا تھا۔ پنجاب اسمبلی ذرائع کے مطابق بل اسمبلی سے پاس ہونے کے بعد ایک یا 2 دن کے اندر وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ بجھوا دیا جاتا ہے۔ وہاں سے پاس ہوجانے والا بل گورنر پنجاب کو ارسال کیا جاتا ہے۔ وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ جیسے ہی پنجاب اسمبلی سے پاس کیا جانے والا بل موصول کرتا ہے تو وہ بل ایک دن کے بعد گورنر پنجاب کو بجھوا دیا جاتا ہے، گورنر ہاؤس ذرائع کے مطابق ہتک عزت بل ابھی تک گورنر ہاؤس کو موصول نہیں ہوا۔
عموماً اسمبلی سے پاس ہو جانے والا بل 2 روز بعد گورنر ہاؤس کو موصول ہو جاتا ہے لیکن ہتک عزت بل 2024 چار دن گزار جانے کے باوجود ابھی تک بجھوایا نہیں گیا، ذرائع پنجاب حکومت کے مطابق بل نہ بجھوانے کے پیچھے کوئی وجہ نہیں، ان کا کہنا ہے کہ بل پر اعتراضات اور مختلف قسم کے باتیں تو چل رہی ہیں مگر ہماری طرف سے بل ایک 2 روز کے اندر گورنر ہاؤس بجھوا دیا جائے گا۔ پاس ہونے والے بل پر گورنر کے دستخط لازمی ہوتے ہیں، اس میں تاخیر کی کوئی وجہ نہیں یہ روٹین کی بات ہے۔
گورنر کو کتنے دنوں کے اندر بل پر دستخط کرنا ہوتے ہیں
پنجاب اسمبلی سے جو بل پاس ہوجاتا ہےاسکو ایک یا 2 دن کے اندر گورنر پنجاب کے دستخط کے لیے بجھوا دیا جاتا ہے۔گورنر کے پاس بل پر دستخط کرنے کے لیے آئینی مدت 10 دن ہے۔گورنر بل پر دستخط کرکے واپس پنجاب اسمبلی بجھوا دیتا ہے، اگر گورنر دستخط نہ بھی کرے تو وہ بغیر دستخط کے بل پر اعتراضات لگا کر واپس بجھوا دیتا ہے، جس کے بعد اسمبلی چاہے تو وہ بل بغیر ترمیم کیے واپس گورنر کو بجھوا دیتی ہے یا اس پر ایوان میں بحث کروا کے واپس گورنر کو بجھوا دیا جاتا ہے، ایسے میں گورنر کے پاس دوبارہ 10 دن کا وقت ہوتا ہے کہ وہ اس بل پر دستخط کردے۔ اگر گورنر دونوں دفعہ بل پر دستخط نہ کرے تو وہ بل خودبخود قانون میں تبدیل ہوجاتا ہے اور گورنر کے دستخط کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ہتک عزت بل واپس بجھوا دوں گا
گورنر پنجاب کو ابھی تک ہتک عزت بل 2024 موصول ہی نہیں ہوا، ایک نجی چینل پر گورنر پنجاب سلیم خان نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کے ہتک عزت بل پر نظرثانی کی ضرورت ہے، یہ بل حرف آخر نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت اسے دوبارہ دیکھ کی قابل اعتراض باتيں نکالے،گورنر پنجاب نے یہ بھی کہا کہ ہتک عزت بل کی وجہ سے ملک میں طوفان برپا ہے جس کو ختم کرنے کے لیے اگر ان کی ضرورت پڑی تو وہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو بٹھا کر مسئلہ حل کرانے کی کوشش کریں گے۔
صحافی تنظمیوں کا بل کے خلاف عدالت جانے کا اعلان
میڈیا کی نمائندہ تنظیموں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے پنجاب ہتک عزت بل 2024 کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے)، آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس)، کاؤنسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای)، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) اور ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز (ایمنڈ) کے نمائندوں نے جوائنٹ ایکشن کمیشن کے ورچوئل اجلاس میں شرکت کی۔
مزید پڑھیں
جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے پنجاب ہتک عزت بل 2024 کو سیاہ قانون قرار دے کر مسترد کردیا۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا کہنا ہے کہ رات کی تاریکی میں اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بغیر قانون بنایا گیا، اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ مل کر جدوجہد کو آگے بڑھایا جائے گا اور حکومت پنجاب کے بل کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔
ہتک عزت بل پر پیپلزپارٹی تحریک انصاف اور جماعت اسلامی ایک پیج پر
ہتک عزت بل کے حوالے سے پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر علی حیدر گیلانی یہ کہہ چکے ہیں کہ بل کی منظوری کے روز پیپلز پارٹی کا کوئی رکن صوبائی اسمبلی ایوان میں موجود نہیں تھا، پیپلز پارٹی ہمیشہ میڈیا کی آزادی کے ساتھ کھڑی ہے، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ میڈیا کی آزادی کی جدوجہد میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہتک عزت بل کو نا منظور کرتے ہیں۔
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے صحافی تنظیموں کو متنازع پنجاب ہتک عزت بل 2024 کے خلاف احتجاج میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا ہے کہ جماعت اسلامی آزادی صحافت اور آئین و قانون کی بالادستی کے لیے ہمیشہ سے جدوجہد کر رہی ہے۔ ہتک عزت بل میڈیا پر پابندیوں کی سازش ہے جسے ناکام بنائیں گے، اس بل کیخلاف سب متحد ہیں، کوئی ایسا قانون قابل قبول نہیں جو بولنے کی صلاحیت سلب کردے اگر حکومت بل واپس نہیں لیتی تو صحافی تنظیموں کے ساتھ ملکر ملک گیر تحریک چلائیں گے۔
تحریک انصاف کا بھی یہی مؤقف ہے کہ حکومت اس بل کو واپس لے اور اس پر نظر ثانی کرے، اپوزیشن صحافی تنظمیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔
ہتک عزت بل واپس لینے کے لیے گورنر پنجاب کو خط
جوڈیشل ایکٹوزم پینل نے ہتک عزت قانون 2024 کو پنجاب اسمبلی کو واپس بھیجنے کے لیے گورنر پنجاب کو خط ارسال کردیا ہے۔ جوڈیشل ایکٹوازم پینل کی جانب سے گورنر پنجاب کو بھجوائے جانے والے خط میں کہا گیا ہے کہ ہتک عزت کا قانون آئین کے آرٹیکل 19 کے منافی ہے۔ اس کے نفاذ سے آزادی اظہار رائے کو روکا گیا جو بنیادی حقوق کے خلاف ورزی ہے۔
خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ ہتک عزت قانون معلومات تک رسائی کے شہریوں کے حق میں بھی بڑی رکاوٹ ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ بل کے نفاذ سے سیاسی مفادات حاصل کرنے کا خدشہ ہے لہٰذا گورنر بل کو منظور کیے بغیر اسمبلی واپس بھجوا دیں۔
دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے جنرل ہاؤس اجلاس سے صدر لاہور ہائیکورٹ بار اسد منظور بٹ نے کہا کہ ہم صحافیوں کے ساتھ ہیں اور ہتک عزت بل کو نامنظور کرتے ہیں۔
ہتک عزت بل ہے کیا؟
ہتک عزت بل کے تحت پنجاب میں ٹریبونل قائم کیا جائے گا۔ اگر کوئی شخص الیکٹرانک، پرنٹ یا سوشل میڈیا کے ذریعے کسی کو بدنام کرتا ہے یا الزامات لگاتا ہے تو متاثرہ شخص اپنی شکایت ٹریبونل میں کرسکے گا۔ ٹریبونل سربراہ کے اختیارات لاہور ہائیکورٹ کے جج کے برابر ہوں گے، ٹریبونل کو پنجاب ڈیفیمیشن ٹریبونل کا نام دیا جائے گا۔
ٹریبونل کے سامنے اگر ہتک عزت ثابت ہوجاتی ہے تو جس شخص نے الزامات یا توہین کی ہوگی اسے 30 لاکھ روپے اس شخص کو دینا ہوں گے جس کے خلاف اس نے الیکٹرانک یا سوشل میڈیا پر الزامات لگائے تھے۔ اس قانون کے مطابق جن آئینی دفاتر کو تحفظ حاصل ہے ان میں صدر، وزیراعظم، اسپیکر، قائد حزب اختلاف، گورنر، چیف جسٹس آف پاکستان، سپریم کورٹ کے ججز، چیف جسٹس اور لاہور ہائیکورٹ کے ججز شامل ہیں۔
سینیٹ کے چیئرمین، وزیراعلیٰ، صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف، صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکر، الیکشن کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین اور ممبران، آڈیٹر جنرل آف پاکستان، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، چیف آف آرمی اسٹاف، چیف آف نیول اسٹاف اور چیف آف ایئر اسٹاف بھی ان میں شامل ہوں گے جن کے خلاف کوئی بھی جھوٹی خبر یا معلومات پھیلانا سنگین جرم تصور ہوگا۔