پولیس والے بھی انسان ہیں

جمعہ 24 مارچ 2023
author image

سجاد لاکھا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان عشروں سے پُر تشدد احتجاج کی زد میں ہے اور جب امن و امان قائم رکھنے کے لیے سول انتظامیہ پولیس کو کارروائی کا حکم دیتی ہے تو پھر انسانی حقوق کے سارے نام نہاد علم بردار جھاگ اڑاتے اور کف بہاتے ہوئے پریس کانفرنسوں اور مظاہروں میں پولیس پر الٹ پڑتے ہیں۔ وہ بضد ہو جاتے ہیں کہ آئین اور قانون کا احترام صرف پولیس پر فرض ہے اور پُر تشدد احتجاج کرنے والے کسی بھی قسم کی تادیبی کارروائی سے بالاتر ہیں ۔

یہ سطور قلم بند کرنے کا مقصد ہرگز ہرگز پولیس کے عمومی رویے یا کسی بھی برسرِ اقتدار جماعت کی جانب سے پولیس کے سیاسی استعمال کو جائز قرار دینا نہیں بلکہ تصویر کا وہ رخ پیش کرنا ہے جسے ہمیشہ نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

وہ اس معاملے کا انسانی پہلو ہے ، ایک ایسا سماج جس کا تانا بانا بکھر چکا ہو ، بدعنوانی ، اقرباء پروری اور رشوت ستانی کو برائی ہی نہ سمجھا جائے ، برداشت ، انسانیت اور رواداری کے اوصاف ناپید ہوں تو اس اخلاقی زوال کے اثرات بھی پورے معاشرے پر مرتب ہونا فطری امر ہے، پولیس بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ۔

مظاہرے ، جلسے جلوس اور احتجاج سیاسی ہو یا سماجی اور مذہبی ، کوئی بھی جماعت یا گروہ جب بھی اپنے حامیوں اور پیروکاروں کے ساتھ سڑکوں پر نکلتے ہیں تو سب سے پہلے ٹریفک کی روانی میں خلل پڑتا ہے ، اس کے بعد امن و امان کے حوالے سے ممکنہ خدشات سول انتظامیہ کو گرفت میں لے لیتے ہیں .

یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جب پولیس کو الرٹ رہنے کی ہدایت ملتی ہے ، دھرنے اور احتجاج بدقسمتی سے اب روز کا معمول ہے اس لیے ہم اکثر یہ تکیف دہ مناظر دیکھتے ہیں کہ پولیس ، ایف سی اور رینجرز کے جوان سرد گرم موسم میں مستعد کھڑے ہیں ، سب سے زیادہ دباؤ میں پولیس ہوتی ہے جسے ہراول دستے کا کردار ادا کرنا ہوتا ہے ، ہم میں سے زیادہ تر لوگ اس صورت حال کی سنگینی کو نظر انداز کر دیتے ہیں ، وہ یہ نہیں سوچتے کہ پولیس والے بھی انسان ہیں ، انہیں بھی چھٹی پر گھر جا کر اپنے پیاروں کے ساتھ وقت گزارنے کی ضرورت ہوتی ہے ، وقت پر کھانا پینا اور آرام کرنا ان کا بھی بنیادی حق ہے.

لیکن یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ فرائض کی انجام دہی کے دوران ضرورت پڑنے پر ان کے لیے واش روم جانا بھی ممکن نہیں ہو پاتا ، بعض اوقات وہ کئی کئی دن تک مسلسل الرٹ رہنے پر مجبور ہوتے ہیں ، کارروائی کا حکم ملنے تک یہ اعصاب شکن صورت حال انہیں اپنی گرفت میں لے چکی ہوتی ہے ، وہ اس کا ذمہ دار بجا طور پر احتجاج کرنے والوں کو سمجھتے ہیں اور پھر ان کا غصہ بھی انہی مظاہرین پر ہی اترتا ہے جن کے قائدین مثالیں تو مغربی جمہوریت ، قانون کی یکساں حکمرانی و احترام کی دیتے ہیں لیکن آج تک اپنے کارکنان اور پیروکاروں کو ایسے مہذب احتجاج کی تربیت نہیں دے سکے جس میں نہ ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی قانون کو ہاتھ میں لیتا ہے ۔

زمان پارک لاہور اور جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں جو کچھ ہؤا وہ انتہائی ناپسندیدہ ، ناقابلِ قبول اور نہایت سنگین عمل تھا ، قانون نافذ کرنے والے اداروں پر پٹرول بم پھینکے گئے ، شدید پتھراؤ اور براہ,راست فائرنگ کے علاوہ سرکاری املاک نذرِ آتش کر دی گئیں ، اسلام آباد پولیس عدالتی حکم پر ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کو گرفتار کرنے گئی تھی لیکن موصوف نے قانون کا احترام کرتے ہوئے عدالت میں پیش ہونے کے بجائے خیبرپختونخوا سے کالعدم تنظیموں کے دہشت گرد بلا کر زمان پارک کو نو گو ایریا بنا لیا .

اس پر مستزاد یہ کہ لاہور ہائیکورٹ کے دو جج صاحبان نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر جتھے کی طاقت سے خوف زدہ ہو کر موصوف سیاسی رہنما اور اس کے حامی دہشت گردوں کو کسی بھی کارروائی سے مستثنیٰ قرار دے دیا ، فاضل جج صاحبان نے یہ تک سوچنے کی زحمت گوارہ نہ کی کہ وہ غیر آئینی مداخلت کے مرتکب ہو رہے ہیں ، اسلام آباد کی اپنی الگ آئینی حیثیت ہے ، اسلام آباد کی کوئی عدالت حکم جاری کرے تو اس کے خلاف سماعت کا اختیار اسلام آباد ہائی کورٹ اور اس کے بعد سپریم کورٹ کو حاصل ہے ، لاہور ہائیکورٹ کے دونوں جج صاحبان واضح طور پر توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں.

، اس معاملے کی سنگینی کا ادراک نہیں کیا جا رہا ، جتھوں کی طاقت اور سوشل میڈیا کے ذریعے دھمکائے جانے پر اسلام آباد کی ضلعی عدالت کے جج کا رویہ بھی عدلیہ کے شایان شان نہیں جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی جتھے دار سیاسی رہنما کو جس طرح ریلیف دیا ہے وہ ہرگز قابلِ ستائش نہیں ، عدلیہ کے اس طرزِ عمل کا جائزہ لیا جانا چاہیے ۔

اس سارے عمل میں سب سے زیادہ نقصان پولیس کے ادارے کو پہنچایا گیا ہے جو امن و امان قائم رکھنے کی بنیادی اکائی ہے ، عدلیہ کے افسوس ناک طرزِ عمل اور حکومت کی کمزوری کے نتیجے میں ریاست کی رٹ پر سوالیہ نشان نے اس منفی تاثر کو درست ثابت کیا ہے کہ ملک میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں .

شدت پسند اور دہشت گرد جتھوں کو پولیس ایف سی اور رینجرز پر حملوں کی کھلی چھوٹ ہے ، اس مقصد کے لیے درخت کاٹ کر ڈنڈے بنائے جا سکتے ہیں ، بنکرز تعمیر کیے جا سکتے ہیں ، نو گو ایریاز بنا کر پوری پوری آبادی کو یرغمال بنایا جا سکتا ہے ۔

پنجاب پولیس نے اگرچہ بعد از خرابی بسیار خیبرپختونخوا سے بلائے گئے ان دہشت گردوں کو گرفتار کر کے زمان پارک کو ان کے قبضے سے چھڑا لیا جو اسلام آباد اور پنجاب پولیس و رینجرز پر حملوں میں ملوث تھے لیکن سوال یہ ہے کہ پولیس کے مورال پر جو خوف ناک ضرب لگی ہے اس کا مداوا کس طرح ہو گا ؟

پولیس سے متعلق ہمیں بحیثیت مجموعی اپنی سوچ کو تبدیل کرنا ہو گا ، سیاسی عدم استحکام ، سماجی اور معاشی ناہمواری ، انسانی رویے اور سخت حالات کار ان پر بھی اسی طرح اثر انداز ہوتے ہیں جس طرح ہم سب پر .

یہ سوچنا کہ پولیس اپنا رویہ درست کرے لیکن ہم اپنی بے ڈھنگی چال ٹھیک نہ کریں ، ہرگز مناسب نہیں ، ملک کی معاشی بربادی کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے قومی وسائل کو بے دردی سے اپنے اللوں تللوں کے لیے استعمال کیا .

ملک و قوم کو بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا کر خود مختاری داؤ پر لگا دی ، ایسا سیاسی کلچر پروان چڑھانے میں ناکام رہے جس میں خود احتسابی کا خود کار نظام موجود ہو ، پولیس اس سب کی ذمہ دار نہیں ، اسے تو ہم ابھی تک گھر کے قریب آٹھ گھنٹے ڈیوٹی کے اوقات کار نہیں دے سکے ، انہیں اپنے جیسا انسان تسلیم کیجیے ، ان کے اعصاب توڑنے میں کسی بھی جماعت یا گروہ کے معاون مت بنیے ۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp