وفاقی حکومت نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی پیشی کے موقع پر جوڈیشل کمپلیکس پر حملے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی قائم کر دی ہے جس میں آئی ایس آئی، آئی بی، ایم آئی اور ڈی آئی جی اسلام آباد شامل ہوں گے۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے اس بات کا اعلان اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کرتے ہوئے کہا کہ 28 فروری کو عمران خان کوجرائم پرعدالت نے طلب کیا اس موقع پر ان کے مسلح جتھوں نے جوڈیشل کمپلیکس پر حملہ کر کے اندر داخل ہوئے اور کورٹ روم تک سی سی ٹی وی کیمرے توڑےگئے لہٰذا یہ حرکت کسی دہشت گردی سےکم نہیں۔
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ 18 مارچ کو بھی عدالتی پیشی پر مسلح افراد نے پولیس اہلکاروں کو گالیاں دیں، اہلکاروں کو زخمی کیا اور اسلام آباد آتے ہوئے بھی گیٹ توڑا گیا جس کا مقدمہ تھانہ رمنا میں درج کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ جےآئی ٹی چار کیسز پر کام کرتے ہوئے ملزمان کو کٹہرے میں کھڑا کرے گی، شفاف تحقیقات کرے گی اور 14 دن میں چالان عدالت میں پیش کرے گی۔ انہوں نے بتایا کہ ایڈیشنل آئی جی پنجاب اس جے آئی ٹی کے سربراہ ہوں گے اس میں آئی ایس آئی کے گریڈ 18، آئی بی سے گریڈ 18 اور ایم آئی سے بھی گریڈ 18 کا ممبر ہو گا جبکہ ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر اسلام آباد بھی اس کا حصہ ہوں گے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ عمران خان کا یہ کہنا ہے کہ وہ بہت مقبول ہیں اس لیے لوگ ان کے ساتھ آئے ہیں لیکن جب وہ لاہور میں چوروں کی طرح عدالت میں پیش ہوئے تو اس وقت اس کی مقبولیت کہاں تھی لوگوں کو باقاعدہ ٹیلیفون کر کے ٹکٹ ہولڈرز کو کہا گیا کہ پچاس پچاس لوگ لائیں اور اپنی حاضری لگوائیں اور اگر ایسا نہ کیا تو ٹکٹ نہیں دینگے اس کا ٹیلیفونک ریکارڈ موجود ہے۔
یاد رہے کہ جوڈیشل کمپلیکس میں توڑ پھوڑ پر سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت تحریک انصاف کے 21 رہنماؤں اور 250 کارکنوں کے خلاف تھانہ رمنا میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
مقدمے میں دہشت گردی ، کار سرکار میں مداخلت اور سرکاری اہل کاروں سے مزاحمت کی دفعات شامل کی گئیں۔ پولیس کی مدعیت میں درج مقدمے کے متن میں کہا گیا تھا کہ عمران خان ہجوم نما مشتعل لشکر کو لے کر جوڈیشل کمپلکس پہنچے اور اس موقع پر پی ٹی آئی رہنما اشتعال انگیز نعرے بازی کے ساتھ ساتھ آتشیں اسلحہ بھی لہرا رہے تھے۔














