امریکی صدر جوبائیڈن نے واشنگٹن ڈی سی (وائٹ ہاؤس) میں اپنے خطاب کے دوران غزہ میں مستقل جنگ بندی اور اسرائیلی افواج کے انخلا کے لیے معاہدہ تجویز کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ دراصل اسرائیل کی جانب سے پیش کیا گیا ہے اور اسے ثالثوں کے ذریعے حماس تک پہنچا دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق صدر جوبائیڈن کا پیش کردہ جنگ بندی کا مجوزہ معاہدہ 3 مراحل پر مشتمل ہے، جس کے مطابق جنگ بندی کا پہلا مرحلہ 6 ہفتے طویل ہوگا، جس میں مکمل جنگ بندی ہوگی اور اسرائیل فوج غزہ کے آبادی والے علاقوں میں سے نکل جائے گی۔
امریکی صدر کے مطابق اس مرحلے میں غزہ میں موجود خواتین اور بزرگ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا، جس کے جواب میں اسرائیل اپنی جیلوں میں قید سینکڑوں فلسطینی قیدی رہا کر دے گا۔
صدر جوبائیڈن کے مطابق اسی پہلے مرحلے میں غزہ میں موجود امریکی مغوی بھی رہا کیے جائیں گے۔ جب کہ اسی مرحلے میں ہلاک مغویوں کی لاشیں بھی ورثا کے حوالے کی جائیں گی اور شمالی غزہ سمیت پورے غزہ میں شہری اپنے گھروں کو لوٹ سکیں گے۔
اس معاہدے کے تحت ہی غزہ میں روزانہ 600 امدادی ٹرک داخل ہوں گے اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے ہزاروں خیمے تقسیم کیے جائیں گے۔
صدر جوبائیڈن کے مطابق دونوں جانب سے جنگ بندی معاہدہ تسلیم کیے جانے کے بعد یہ مرحلہ فوری شروع کیا جاسکے گا۔
دوسرے مرحلے میں تمام زندہ مغویوں بشمول مرد فوجیوں کا تبادلہ ہوگا اور اسرائیلی فوج غزہ سے مکمل طور پر انخلا کرے گی، جب کہ تیسرے اور آخری مرحلے میں غزہ کی تعمیر نو کے منصوبے کا آغاز کیا جائے گا۔
اسرائیل میں کچھ لوگ اس منصوبے سے خوش نہیں ہوں گے
بین الاقوامی میڈیا مطابق صدر جوبائیڈن نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ اسرائیل میں کچھ لوگ اس منصوبے سے خوش نہیں ہوں گے، لیکن میں اسرائیلی حکومت سے کہتا ہوں کہ ہر طرح کے دباؤ سے قطع نظر اس معاہدے کی حمایت کرے۔