مبینہ طور پر ایران سے وابستہ گروپوں کی جانب سے امریکی فوج کے خلاف جان لیوا ڈرون حملہ کے بعد مشرقی شام کے علاقہ میں امریکی فوج نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے متعدد فضائی حملے کیے ہیں۔
امریکی محکمہ دفاع پینٹا گون کے مطابق امریکا کی جانب سے حالیہ فضائی حملے امریکی سربراہی میں قائم اتحادی اڈے پر کیے گئے اس ڈرون حملہ کے جواب میں کیے گئے ہیں جس میں ایک امریکی ٹھیکیدار ہلاک جب کہ 5 فوجیوں سمیت 6افراد زخمی ہوگئے تھے۔
اگرچہ شام میں تعینات امریکی افواج کو اس سے پہلے بھی ڈرونز کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے لیکن حملوں میں ہلاکتیں شاذ و نادر ہی ہوتی تھیں۔
عراق کی سرحد سے متصل اور تیل کے ذخائر سے مالامال شام کے دیر از زور میں امریکی فضائی حملوں کے باعث، برطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق مشرقی شہر دیر از زور میں امریکی حملوں میں مجموعی طور پر گیارہ ایرانی حمایت یافتہ جنگجو مارے گئے ہیں۔
امریکی محکمہ دفاع کے ایک بیان کے مطابق ان حالیہ حملوں کا مقصد امریکی اہلکاروں کی حفاظت اور دفاع کرنا ہے۔ ’امریکہ نے انتہائی سوچی سمجھی کارروائی کی جس کا مقصد بڑھنے کے خطرے کو محدود کرنا اور ہلاکتوں کو کم کرنا ہے۔‘
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کا کہنا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس کے مطابق حملہ آور ڈرون اصل میں ایرانی ساختہ تھا۔ امریکی حملوں میں مشرقی شام میں ایران کے اسلامی انقلابی گارڈز کور سے وابستہ گروپوں کو نشانہ بنایا گیا۔
یہ حملہ اس وقت ہوا ہے جب اعلیٰ امریکی جنرل مارک ملی نے داعش کے خلاف مشن اور امریکی افواج کو لاحق خطرات کا جائزہ لینے کے لیے شمال مشرقی شام کا دورہ کیا تھا۔
امریکی حکام کا خیال ہے کہ شام میں اس کی افواج کے خلاف ڈرون اور راکٹ حملے ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کر رہے ہیں۔ ایران کی جانب سے ان حالیہ امریکی حملوں کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔
عالمی میڈیا کے مطابق شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے فوری طور پر کسی امریکی حملے کا اعتراف نہیں کیا۔ اسی طرح اقوام متحدہ میں شام کے مشن نے فوری طور پر تبصرہ کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔