آج چاند کی 14 تاریخ ہے اور جمعہ کا دن….وکٹوریا البرٹ میوزیم لندن صرف جمعہ کے دن صبح 10 سے رات 10 بجے تک کھلا رہتا ہے اور اب ساڑھے 10 بجنے والے ہیں۔ دوسری شفٹ پر موجود عملے کی ذمہ داری میوزیم بند کرنے سے پہلے دیگر کام نمٹا کر میوزیم کی تمام لائٹیں اور مین سوئچ وغیرہ بند کرنا ہے۔
ہے میٹ! میک شوئر ٹو سوئچ آف، آل لائٹس۔۔ایک ملازم نے اپنی کولیگ کو آواز لگائی
شوئر لو! خاتون ملازم نے جواب دیا۔
کھٹ کھٹ کھٹ …..تمام مین سوئچ بند ہوتے ہی میوزیم کی تمام گیلریاں اور کاسٹ کورٹ بھی تاریکی اور خاموشی میں ڈوب گیا۔
وکٹوریا البرٹ میوزیم میں کاسٹ کورٹ وہ حصہ ہے جہاں دُنیا بھر کے مایہ ناز مجسمہ سازوں کے مجسموں کی ہوبہو نقلیں رکھی گئی ہیں جن میں کئی اصل سے بھی زیادہ خوب صورت ہیں۔
پورے میوزیم کی طرح ایسٹ کورٹ میں بھی اندھیرا ہوتے ہی اچانک ہلچل مچ گئی،گیلری میں رکھے دُنیا کے مایہ ناز مجسمہ سازوں کے مجسموں میں جیسے جان سی پڑ گئی تھی۔
’آج میری اپنے خالق سے ملاقات ہونی ہے، بس ابھی پہنچنے ہی والے ہوں گے۔
’ مجسمہِ ڈیوڈ نے ٹانگیں سیدھے کرتے ہوئے کھل کر انگڑائی لی۔ ’جمعہ کے دن 12 گھنٹے ساکت کھڑے کھڑے ٹانگیں جواب دینے لگتی ہیں۔‘
کون سا والا خالق؟ مائیکل انجیلو یا کلیمنت پاپپّی؟
اسکول آف ایتھنز کے ایک مجسمے نے باہر نکلتے ہوئےڈیوڈ کو چھیڑا۔
دونوں….. ڈیوڈ نے یقین سے جواب دیا۔
چلو پھر تم کرو انتظار میں تو دوسرے مجسموں کے ساتھ ذرا کھلی فضا میں سانس لے لوں۔ مجسمے نے وکٹوریہ البرٹ میوزیم کے پایاں باغ کی جانب دوڑ لگاتے ہوئے کہا جہاں چاند کی دودھیا روشنی پھیلی ہوئی ہے۔
ڈیوڈبےچینی سے پہلو بدلنے لگا۔ آج وہ اپنے دونوں خالقوں سے ملنے کے لیے بے تاب تھا۔
میوزیم کی دیواروں پر سجی نشاط ثانیہ سے لے کر دور حاضر کے مشہور مصوروں کی تصویریں زندہ ہو گئیں تھیں۔ نشاط ثانیہ کے مصور سیلی اور تنتوریتو سے لے کر بائبلی مصور جان بروغیل John Brueghel انجیلیکا خوفمین، ایمپریشن آرٹ کے ڈیگاں، لینڈ اسکیپ کے ماہر ٹرینر اور پری ریفی لائٹ مصوری کے بانی دانتے کی تصویریں بولنے لگیں اور سب کردار جی اٹھے تھے۔
لندن کا وکٹوریہ البرٹ میوزیم جی اٹھا تھا۔
اسی سمے میوزیم کے بیرونی دروازے سے مائیکل انجیلو اور پاپپی داخل ہوئے اور ان کے قدم ایسٹ کورٹ گیلری کی جانب بڑھنے لگے۔
ہمارا شاہکار ہمارے انتظار میں ہوگا، جلدی چلو پاپپی ….مائیکل انجیلو نے قدرے غصے سے بڑے بڑے قدم اٹھاتے ہوئے کہا۔
سینیور آپ کا غصہ آج بھی پہلے ہی کی طرح ہے۔ پاپپی نے دھیرے سے کہا۔ غصہ….ہمممم ….حالات کا جبر، اور اس پر کم عقلوں کا تخلیقی کاموں میں بے جا ٹانگ اڑانا دماغ کو گرم کرنے کے لیے کافی ہوتا ہےــ مائی ڈیر …..!
وہ سلیپنگ کیوپڈ والا ماجرا کیا تھا؟
ہییں! تم اس کہانی سے بھی واقف ہو؟
جی تھوڑی بہت اڑتے اڑتے افواہیں کان میں پڑ ہی جاتی تھیں، پاپپی منمنایا۔
دراصل اسی زوال سے میرا عروج شروع ہوا ۔فلورنس میں لورینزو ایک بینکر اور سیاستدان تھا اس نے مجھے 2 پروجیکٹ دیے جن میں ایک سلیپنگ کیوپڈ تھا لورینزو نے کہا کہ مجسمہ ایسا بناؤ کہ محسوس ہو کہ یہ زمین میں دفن تھا۔ قدیم مجسمہ سمجھ کر گاہک پیسے زیادہ دے گا۔ لیکن قسمت نے یاوری نہ کی اور ہم جعل سازی کے جرم میں پکڑے گئے۔
پھر …..پاپپی نے سوال کیا۔
پھر کیا …پکڑا تو جھوٹ بولنے پر تھا لیکن سلیپنگ کیوپڈ کا خریدار کارڈیل ریاریو میرے کام سے بے حد متاثر ہوا، سو روم میں مجسمہ سازی کرنے کے لیے بھیج دیا دعوت نامہ۔
روم میں میرا کام نکھرنے لگا اور جلد ہی میں ایک جانا مانا مجسمہ ساز بن گیا۔ وہاں تعینات فرانسیسی سفیر نے میرے کام کو سراہتے ہوئے 1497میں مجھے ’پیّاتا‘ تراشنے کا کام سونپا جس میں ایک سال لگا۔ اس میں کنواری مریم یسوع مسیح کو گود میں لیے بین کر رہیں ہیں۔ جانتے ہو …میں نے24سال کی عمر میں یہ مجسمہ تخلیق کیا تھا۔
واہ ایک پتھر کی سِل کو کس نفاست سے تراشا …واساری نے ایسے ہی تو پیّاتا کو’ایک معجزہ‘ نہیں کہا۔ پاپپی نے لقمہ دیا اور فوراً سوال داغا، اس کے بعد کہاں کی خاک چھانی؟
میں 1499 میں فلورنس واپس آیا جہاں کونسل نے مجھے ایک 40 سال پرانے نامکمل پروجیکٹ کو پایہ تکمیل تک پہچانے کی ذمہ داری سونپی، جانتے ہو وہ کیا پروجیکٹ تھا پاپپی؟
ایسٹ کورٹ میں داخل ہوتے ہوئے مائیکل انجلو نے سوال کیا۔
سامنے ڈیوڈ ان کا منتظر بیٹھا تھا۔
یہ تھا میرا پروجیکٹ جو مجھ سے پہلے 2 مجسمہ ساز تراش نہیں پائے تھے۔
کیسے ہو ڈیوڈ؟ مائیکل انجیلو نے احساس تفاخر سے ڈیوڈ کو دیکھا۔
لیکن یہ والا ڈیوڈ تو میں نے تراشا تھا۔ پاپپی نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔
اچھھھھھا …. ہاں واقعی ….. لیکن بہرحال ہے تو میرے مجسمے کی نقل ہی نا … جو تم نے ملکہ وکٹوریا کے لیے تقریباً ساڑھے 3 سو سال بعد 1857 میں بنائی۔ جانتے ہو پاپپی میں نے جب یہ پروجیکٹ لیا تو کسی سنگ مرمر کو دیکھ کر مجھے ڈیوڈ تراشنے کا من نہ کرتا تھا۔ ایک دن اسی شش و پنج میں بازار سے گزر رہا تھا تو ایک گھوڑا گاڑی میں ایک بڑی سی سل پڑی دیکھی جو بیکار تھی اور ٹھکانے لگنے والی تھی لیکن مجھے اسی وقت اس سنگ مرمر کی سل میں اپنا ڈیوڈ نظر آگیا۔
مائیکل انجیلو نے پیار سے اپنی تخلیق ڈیوڈ کی نقل کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے بتایا۔
ڈیوڈ ہمہ تن گوش تھا۔
کلیمیت پاپپی اب ذرا تم سناؤ اپنی کتھا۔ میں تو 1564 میں عالم برزخ پہنچ چکا تھا۔
محترم اب آپ جیسے مہان فنکار کے سامنے کیا کہوں؟ میں تو ویسے اپنے عروج کے دنوں میں بھی گوشہ نشین ہی رہا، یہی وجہ ہے کہ دنیا میرے بارے میں کم ہی جانتی ہے۔
میسیور ویسے تو مجھے کانسی کے مجسمے بنانے میں زیادہ دلچسپی رہی ہے۔ نشاط ثانیہ کے کئی نامور مجسمہ سازوں کی نقول بنانے کے لیے، میں نے قدیم طریقہ کاراپنایا جس میں موم اور دھات کو پگھلا کر اور یکجان کر کے کئی نامور مجسمہ سازوں کی تخلیقات کو دوبارہ زندہ کیا۔ پاپپی نے انکساری سے بتلایا۔
تمھارے کام کی نفاست دیکھ کر نقل میں اصل کا گمان ہوتا ہے، لیکن تم نے کیوں اپنا کچھ نیا تخلیق نہیں کیا؟ نقول پر ہی کیوں توجہ مرکوز رکھی؟ اس کی کوئی خاص وجہ؟
سینیورے! معذرت کے ساتھ، میں سمجھتا ہوں کہ آپ جیسے معرکۃ الآرا مجسمہ ساز کے مجسمے کی نقل بنانا زیادہ مشکل کام ہے بہ نسبت خود اپنی نئی تخلیق کے۔
دوسری اہم وجہ یہ بھی تھی کہ وقت بدل رہا تھا اور ایسے شاہکاروں کی طلب بڑھ رہی تھی۔ میرا ایمان تھا کہ ایسے نادر نمونوں کو دنیا کے ہر خطے میں موجود ہونا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اسے دیکھیں اور سراہیں۔
ہمممممممممم …..بات میں وزن ہے تمہاری۔سینیور (کاسٹ)شاہکاروں کی نقول کا رجحان میرے دور میں بہت بڑھا اور آج تک جاری ہے۔ جبکہ کانسی کے مجسمہ سازوں میں مجھے ہی بانی مانا گیا۔
بین فاتو ( ویل ڈن) مائیکل نے پاپپی کو سراہا۔
گرازییے( شکریہ) سینیور۔
اسسٹین چیپل سیلنگ اور دی لاسٹ ججمنٹ جیسا حیرت کدہ دوبارہ تخلیق نہیں ہو سکتا … اس کی پیچیدگی اور انفرادیت کے پیچھے کیا کہانی ہے؟ پاپپی نے پوچھا۔
کیا کٹھن اور یادگار دن تھے وہ میری زندگی کے، جانتے ہو 4 سال لگے اسے مکمل کرنے میں، دراصل مجھے یسوع مسیح کے بارہ پیروکاروں کو پینٹ کرنے کا پروجیکٹ ملا جو ایک سیدھا سادھا و آسان کام تھا۔ 2 سال قبل لیونارڈو ڈاونچی ’دی لاسٹ سپر‘ بنا چکا تھا اس لیے مجھے کچھ مختلف کرنا تھا۔
بھئی ہم عصروں میں رقابت تو ابد سے ہے اور ازل تک رہے گی۔
خیر میں نے پوپ جولیس ٹو کو یقین دلایا کہ اگر وہ میرے کام میں مداخلت نہیں کریں گے تو میں کلیسا کے گنبد کی اندرونی چھت پر ایک پیچیدہ لیکن منفرد تخیلاتی مصوری کا نمونہ پینٹ کروں گا۔
یہ پہلی بار ہوا کہ کلیسا کی چھت پر زندگی اور تخلیق کی پوری کہانی تصویروں کی زبانی دکھائی گئی۔
یہ پروجیکٹ 1509 میں شروع ہوا اور 1512 میں مکمل ہوا۔ مائیکل انجیلو نے گہری سانس لی۔
دی لاسٹ ججمنٹ بناتے ہوئے کافی مخالفت بھی ہوئی تھی غالباً؟
ہاں 19 سال بعد پوپ کلیمنٹ نے مجھے سسٹین چیپل کی دیوار پر پلاسٹر کو کھرچ کر رنگ بھر کر ’دی لاسٹ ججمنٹ‘ کی مصوری کا کام سونپا۔
اس بار بھی میں نے کچھ نرالا اور الگ کام کرنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ رنگ خود بنائے اور جب پلاستر کھرچتا اور رنگ بھرتا تو رنگ اور کھرچن بار بار میری آنکھوں میں پڑتی جس سے میری آنکھیں سرخ رہنے لگی، میں کئی کئی دن نہ سوتا نہ کھانے پینے کا ہوش رہتا۔
دی لاسٹ ججمنٹ میں، میں نے روایتی کے بجائے ایک تندرست، توانا بنا داڑھی والے یسوع مسیح کو پینٹ کیا۔ یہ بھی اسسٹین چیپل کی سیلنگ کی طرح ایک پیچیدہ اور منفرد اسلوب کی مصوری تھی۔
کوئی شک ہی نہیں میسیور … آپ کا یہ کارنامہ رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔ پاپپی نے سر ہلا کر تائید کی۔
ڈیوڈ اپنے خالقوں کی گفتگو انہماک سے سن رہا تھا۔ تم بہت خاموش ہو، ایک عرصے سے تم ہم سے ملنے کے خواہش مند تھے اور اب چپ سادھے بیٹھے ہو۔ مائیکل انجیلو نے ڈیوڈ کو خاموش دیکھ کر سوال کیا۔
آپ دونوں کی زندگی کے اتار چڑھاؤ، کامیابیوں ناکامیوں کی داستان ایک نشست میں بھلا کیسے مکمل ہو سکتی ہے۔
میں واقعی اپنے تخلیق کاروں سے ملنا، ان کی زندگی اور کارناموں کی کہانی جاننا چاہتا تھا۔
میسیور آپ ایک شاعر بھی تو تھے۔ آپ نے اپنی نظموں میں روح کو، محبت کو انسانیت اور بے انتہا خوشی کی طاقت سے جوڑا اور پھر خدا سے ملایا ہے۔
لیکن آج اس ترقی یافتہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ نہ کسی کامیابی پر دلی تسکین ملتی ہے، نہ انسانیت کی تذلیل پر ذرا بھی شرمندگی محسوس ہوتی ہے؟ صبح سے شام اس عجائب گھر میں ایستادہ ہم سارے مجسمے، بھانت بھانت کے لوگوں کو حیرت میں مبتلا کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم تو خود دنیا کے رویوں پر حیرت زدہ ہیں۔ یہاں سب کو دیکھ کر محسوس ہی نہیں ہوتا کہ آج میری دھرتی خون سے نہلائی جارہی ہے۔
کیا فلسطین کے انسانوں کی دنیا کوئی اور ہے، جہاں سوائے جنگ، بمباری، تباہی کے کچھ اور نہیں اور یہ ….؟؟ یہ ہمارے آس پاس کی دنیا؟ جیسے کہیں کچھ برا اور غلط ہو ہی نہیں رہا؟ اتنی بے حسی، اتنا تضاد ؟ مجسمہ ڈیوڈ نے ایک ہی سانس میں اپنے تخلیق کاروں سے کئی سوال کر ڈالے۔
میوزیم کے باغ میں سحر کا داغ داغ سا اجالا پھیلنے لگا ہے…. سارے مجسمے دوبارہ اپنی اپنی جگہ پر بے جان کھڑے ہونے کے لیے واپس آرہے ہیں۔ تصویروں کے تمام کردار واپس فریموں میں قید ہو رہے ہیں۔
ڈیوڈ چند لمحے کلیمنت پاپپی اور مائیکل انجیلو کو تکتا رہا پھر دوبارہ اپنی جگہ پر جامد و ساکت جا کھڑا ہوا۔
مائیکل انجیلو اور کلیمنٹ پاپپی گنگ ہیں۔
دونوں تخلیق کار بے بسی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔