صحافت اور ادب لازم و ملزوم نہ سہی لیکن ان میں ایک قریبی ربط ضرور رہا ہے۔ کئی نامور اور عظیم ادیب باقاعدہ صحافی رہے اور بہت سوں نے تو صحافت کے پیشے سے ہی عملی زندگی کا آغاز کیا، اس میں کامیابی حاصل کی اوراس کے ساتھ ساتھ ادب میں بھی اہم مقام بنایا۔ ان میں سے ایک انتہائی نمایاں ادیب گابرئیل گارسیا مارکیز ہیں جو باقاعدہ صحافی کے طور پربھی خدمات سرانجام دیتے رہے۔
مارکیز کولمبیا سے تعلق رکھتے تھے، انہیں لاطینی امریکہ میں گَیبو اور گبیٹو کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ وہ بیسویں صدی کے عظیم مصنفین میں نمایاں ترین تھے اور ہسپانوی زبان کی پوری تاریخ میں ان جیسا تخلیق کار شاید ہی کوئی اور ہو۔ انہیں 1982 میں نوبیل انعام ملا۔ اگرچہ ان کی اصل پہچان ان کے شہرہ آفاق ناول بنے لیکن یہ بات دلچسپ ہے کہ انہوں نے صحافت سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور ادب کے علاوہ کئی موضوعات پر بے شمار شاندار تحریریں ان کے قلم سے نکلیں۔ ان سے مختلف مواقع پر ہونے والے مکالموں میں، دنیا کے کئی اہم اخبارات اور رسالوں سے وابستہ افراد نے ان کی صحافتی زندگی اور صحافت کے بارے میں جاننے کی کوشش کی، جو دلچسپی سے خالی نہیں۔
وہ کچھ عرصہ کے لیے باقاعدہ صحافت سے الگ ہو گئے تھے۔ جب دوبارہ اس شعبےسے وابستہ ہوئے تو کسی نے پوچھا کہ طویل عرصہ تک ناول لکھنے کے بعد کیا آپ صحافت کو نئے انداز یا نئے احساس کے ساتھ شروع کر رہے ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا، ‘میں ہمیشہ اس بات کا قائل رہا کہ میرا اصل پیشہ صحافت ہی ہے۔آغاز میں مجھے صحافت کا ماحول ناپسند تھا، دوسرا یہ کہ مجھے اپنے خیالات اور سوچ کو اخباری مفادات کے رنگ میں رنگنا پڑتا تھا، اب ایک ناول نگار کے طور پر کام کر کے اور معاشی طور پر آزاد ہو کر میں اپنی مرضی کے موضوعات چن سکتا ہوں اور اپنے من پسند خیالات کی ترویج کر سکتا ہوں۔ میں ہمیشہ صحافت کے کام سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔’
کیا آپ نے انٹرویو کرنے کے لیے کبھی ٹیپ ریکارڈر استعمال کیا؟ تو ان کا کہنا تھا، ‘بطور صحافی میں نے اس کا کبھی استعمال نہیں کیا، میں ٹیپ ریکارڈر موسیقی سننے کے لیے استعمال کرتا ہوں، اور دوسری بات یہ کہ میں نے کبھی کوئی انٹرویو کیا ہی نہیں، میں رپورٹس توبناتا رہا ہوں لیکن سوال جواب پر مشتمل انٹرویو کبھی نہیں کیا۔‘
دراصل،ان کا ایک انٹرویو کافی معروف ہوا تھا، یہ انٹرویو ایک ملاح سے کیا گیا تھا جسے ایک بحری حادثہ پیش آیا تھا۔ لیکن مارکیز کا کہنا تھا کہ وہ سوال جواب کا سلسلہ نہیں تھا۔ وہ ملاح مجھے اپنے ایڈونچر کی کہانی سناتا گیا اور میں اس کی باتیں اسی کے الفاظ میں صیغۂِ واحد متکلم میں لکھتا گیا، گویا وہ خود یہ سب لکھ رہا ہو۔ یہ تحریر ایک اخبار میں 2 ہفتے قسط وار چھپی اور اس پر اسی ملاح کے دستخط تھے، میرے نہیں۔ یہ تو 20 برس بعد جب یہ تحریر دوبارہ شائع ہوئی تولوگوں کو معلوم ہوا کہ یہ میرا کام تھا۔ ویسے تنہائی کے سو سال‘ سامنے آنے تک کسی مدیر کی نظر میں یہ کوئی عمدہ کام نہیں تھا۔’
مارکیز جان ہرسے کے ’ہیروشیما‘ کو سب سے بڑا صحافتی کارنامہ قرار دیتے تھے۔ ایک انٹرویو میں کہتے ہیں کہ آج بھی ایسی کئی کہانیاں موجود ہیں اور میں نے بھی کئی لکھی ہیں، میں نے پرتگال، کیوبا، انگولا اور ویت نام کے بارے میں لکھا ہے۔ اب میں پولینڈ کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں، میرے خیال میں آج کل وہاں جو کچھ ہو رہا ہے اگر اس کی صحیح تصویرکشی کر سکا تو یہ بہت اہم سٹوری ہو گی۔ لیکن پولینڈ میں ابھی بہت سردی ہے، آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں سہولت پسند صحافی ہوں۔ (یہ بات انھوں نے 1981میں، ایک انٹرویو کے دوران کہی تھی)۔
یہ سوال ان سے کئی بار کیا گیا کہ آپ کے خیال میں کیا ناول وہ کام کر سکتا ہے جو صحافت میں نہیں ہو سکتا؟ تو ان کا کہنا تھا، ’میرا نہیں خیال کہ ان دونوں میں کوئی فرق ہے، ذرائع ایک ہیں، مواد ایک ہے، وسائل اور زبان ایک ہیں۔ ڈینئیل ڈیفو کاThe Journal of the Plague Year ایک عظیم ناول ہے اور ‘ہیروشیما’ صحافت کا عظیم کارنامہ۔’ ہیروشیما کی وہ ہمیشہ بہت تعریف کرتے تھے، یہ کتاب ہیروشیما پر ہونے والے ایٹم بم حملے میں زندہ بچ جانے والے 6 افراد کا احوال ہے، جسے کہانی کے انداز میں بیان کیا گیا۔
تخیل اور سچائی کے درمیان توازن برقرار رکھنے کے حوالے سے صحافی اور ناول نگارکی ذمہ داریوں کے بارے میں کہتے ہیں؛ صحافت میں ایک جھوٹ سارے کام کو متعصبانہ بنا سکتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں فکشن میں ایک اکیلا سچ سارے کام کو وقار بخشتا ہے۔ بس اتنا سا فرق ہے اور اس بات کا تعلق لکھنے والے کی اپنے کام سے وابستگی سے ہے۔ ایک ناول نگار جب تک لوگوں کو اس کا یقین دلا سکے اس وقت تک جو جی چاہے کر سکتا ہے۔
صحافت کے فکشن پر اثرات کے بارے میں مارکیز کا خیال تھا کہ اثر دونوں طرف ہے، ‘میرے فکشن نے صحافت کی مدد کی ہے کیونکہ اس نے اسے ادبی قدر عطا کی ہے اور صحافت نے میرے فکشن کی مدد کی ہے کیونکہ اس نے مجھے حقیقت کے قریب رکھا ہے۔’
واقعات کو دلکش جزئیات کے ساتھ بیان کرنے اور انہیں نئی حقیقتوں سے آشنا کرنے کے بارے میں اپنے ہنرکی بابت کہتے ہیں کہ یہ وہ صحافتی چال ہے جو آپ ادب میں بھی استعمال کرسکتے ہیں، مثال کے طور پراگر آپ کہیں کہ فضا میں ہاتھی اڑ رہے ہیں، لوگ اس پر یقین نہیں کریں گے، لیکن اگر آپ کہیں کہ 425 ہاتھی اڑ رہے ہیں تو لوگ شاید یقین کر لیں، ‘تنہائی کے سو سال’ اس طرح کی باتوں سے بھرا ہوا ہے۔ یہ وہ تکنیک ہے جو میری دادی استعمال کرتی تھیں، مجھے وہ کردار یاد ہے جسے پیلی تتلیوں نے گھیرا ہوا تھا۔جب میں چھوٹا تھا ایک الیکٹریشن ہمارے گھر آتا تھا، میں بہت متجسس ہو جاتا تھا کیونکہ اس کے پاس ایک بیلٹ ہوتی تھی جس سے وہ خود کو بجلی کے کھمبوں سے لٹکاتا تھا۔ میری دادی کہتی تھیں کہ یہ بندہ جب بھی آتا ہے گھر تتلیوں سے بھر جاتا ہے۔ جب میں یہ لکھ رہا تھا تو مجھے پر یہ عقدہ وا ہوا کہ اگر میں یہ نہ لکھتا کہ تتلیاں پیلی ہوتی تھیں تو لوگ اس بات کا یقین نہ کرتے۔’