نیب کو درست کرنا پارلیمنٹ کا کام لیکن فارم 47 والی پارلیمنٹ نہیں کر سکتی عمران خان

جمعرات 6 جون 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سابق وزیراعظم اور بانی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ نیب کو درست کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے لیکن فارم 47 والی پارلیمنٹ نہیں کر سکتی۔

آج نیب ترامیم کیس میں عمران خان نے سپپریم کورٹ بینچ کے سامنے دلائل دیتے ہوئے انہوں نے بینچ کی اس بات سے اتفاق کیا کہ نیب کو ٹھیک کرنا عدالت نہیں پارلیمنٹ کا کام ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ وہ پارلیمنٹ کر سکتی ہے جو عوام کو جوابدہ ہو نہ کہ فارم 47 پر منتخب پارلیمنٹ۔ ہمارے پاس فہرست ہے کہ نیب ترامیم سے کن سیاستدانوں نے فائدہ اٹھایا، یہ نہیں ہو سکتا کہ جن لوگوں کو فائدہ مل رہا ہو وہی ترامیم کریں۔

اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ان ترامیم کے تحت کرپشن کے مقدمات ختم نہیں بلکہ دوسری عدالتوں کو منتقل ہو جائیں گے۔ جسٹس امین الدین خان نے عمران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف اس مقدمے کے بارے میں بات کریں اور یہ بتائیں کہ نیب قانون میں کی گئی ترامیم کس آئینی شق سے متصادم ہیں؟ خواجہ حارث احمد تفصیلی دلائل دے چکے ہیں آپ اگر کچھ ایڈ کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کوئی ایسی آئینی بنیاد نہیں کہ ہم ان ترامیم کو کالعدم کر دیں۔ اس کو کالعدم کرنے کے لیے دلائل اور وجوہات کا معیار بہت بلند ہونا چاہیے۔ اس پر عمران خان نے کہا کہ میں بڑی عاجزی کے ساتھ کہتا ہوں کہ وہ لوگ ترمیم نہیں کر سکتے جو خود بینیفشری ہیں۔ مجھے پانچ دنوں میں تین سزائیں دی گئیں، میرا ان عدالتوں پر کیا اعتماد ہو گا۔ میں نے دیکھا ہے کہ عدالتیں کیسے چلتی ہیں۔ 2021 میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گتریس نے ایک رپورٹ بھجوائی کہ ترقی پذیر ملکوں میں غربت اس لیے بڑھ رہی ہے کہ امراء پیسہ چوری اور منی لانڈرنگ کرتے ہیں۔ اس وقت ترقی پذیر ملکوں کے سات ٹریلین ڈالر مغربی ممالک میں پڑے ہیں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ جس نیب کی آپ نے بیس سال تربیت کی، اس کو ختم کرنا مسئلے کا حل نہیں، بلکہ اس کو ٹھیک کرنا چاہیے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین کو تبدیل کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے۔ اس پر عمران خان نے کہا کہ اس وقت ملک کی حالت بری ہے، ملک دیوالیہ ہے۔

 عمران خان نے کہا کہ انہیں اس بات سے بڑی تکلیف ہوئی ہے کہ میں یہ سب سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے کر رہا ہوں۔ انہوں نے عدالت سے کہا کہ واضح کریں کہ میں کیسے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کر رہا ہوں؟ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ ان اپیلوں کی مخالفت کر رہے ہیں؟ عمران خان بولے ’بالکل، میں مخالفت کر رہا ہوں۔‘

عمران خان نے شروع میں عدالت کو انگریزی میں مخاطب کیا تو جسٹس جمال خان مندوخیل بولے کہ اردو زبان میں بات کریں۔ جس پر عمران خان نے کہا کہ اردو میرے لیے زیادہ آسان ہے۔ انہوں نے عدالت سے کہا کہ آپ نے لائیو سٹریمنگ کیوں بند کر دی؟ جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اس کا فیصلہ ہو چکا ہے، بہتر ہے آپ موضوع سے متعلق بات کریں۔

عمران خان نے کہا کہ آپ نے سمجھا کہ میں کوئی بہت غیر ذمے دار انسان ہوں اور پتہ نہیں کیا بات کر دوں گا، یا میں کوئی بہت خطرناک بات کر دوں گا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ آرڈر دیکھیں، ہم نے ایسی کوئی بات نہیں لکھی۔ عمران خان نے کہا کہ نیب ترامیم مقدمے کا انحصار صرف اس بات پر ہے کہ کون ایمانداری سے ترامیم کرتا ہے اور کون بے ایمانی سے۔ نیب نے مجھ پر مقدمہ بنایا کہ میں نے توشہ خانہ سے ایک کروڑ 80 لاکھ کی گھڑی لی جو کہ اصل میں تین ارب روپے کی تھی۔

یہاں عدالت نے انہیں ایک بار پھر ٹوکتے ہوئے متعلقہ معاملے تک محدود رہنے کی ہدایت کی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہم تو یہی کہہ رہے ہیں کہ نیب مس یوز ہو رہا ہے۔ آپ کل پارلیمنٹ آ جائیں اور آ کر ٹھیک کر دیں۔

عمران خان نے اپنی بات دہراتے ہوئے کہا کہ نیب نے دو کروڑ کی چیز تین ارب کی دکھا دی۔ میں صرف یہ کہتا ہوں کہ چیئرمین نیب کا تقرر سپریم کورٹ کو کرنا چاہیے، یہاں پر حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق ہو نہیں پاتا تو پھر تھرڈ امپائر فیصلہ کر دیتا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ نیب میرے نیچے تو نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ 2018 میں نیب نے 480 ارب ریکور کیے۔ 2023 میں صرف تین لاکھ۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ میں آپ کو وجہ بتاتا ہوں کہ ایسا کیوں ہوا، کیونکہ اس مقدمے کی وجہ سے نیب کی کارروائیاں رکی ہوئی ہیں۔ جب یہ فیصلہ ہو جائے گا تو ریکوریاں شروع ہو جائیں گی۔ عمران خان نے کہا کہ ہم نے پارلیمانی جمہوریت کا تصور برطانیہ سے لیا جس کی بنیاد اخلاقی برتری اور اخلاقیات پر استوار ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp