پشاور کے تاریخی قصہ خوانی بازار کے ساتھ بالی ووڈ اسٹار شاہ رخ خان کا گہرا تعلق ہے۔ ان کا خاندان انڈیا منتقلی سے پہلے یہاں رہائش پذیر تھا۔ قصہ خوانی کے شاہ ولی قتال میں ان کا خاندانی گھر اب بھی اصلی حالت میں موجود ہے جسے خیبر پختونخوا حکومت تاریخی ورثہ قرار دے چکی ہے۔
شاہ رخ خان کے خاندانی گھر میں اب کون رہائش پذیر ہے؟
پرانے طرز اور لکڑیوں سے بنا شاہ رخ خان کا آبائی گھر اب بھی اصلی حالت میں موجود ہے۔ یہ گنجان آباد محلہ شاہ ولی قتال میں ایک تنگ گلی کے اندر واقع ہے۔ جس کے اردگرد کراکری کی دکانیں قائم ہیں۔ گھر میں شاہ رخ خان کی پاکستانی کزن نور جہاں عرف منی کا خاندان رہائش پذیر ہے۔ نور جہاں عرف منی چند سال پہلے فوت ہو گئی تھیں جبکہ بچے اور خاوند اس گھر میں مقیم ہیں اور گھر منی کے نام پر ہے۔
گھر خستہ حال ہو چکا ہے
شاہ رخ خان کے پاکستانی بہنوئی یاسین برہان نے وی نیوز کو بتایا کہ یہ گھر شاہ رخ خان کے خاندان کا آبائی گھر ہے جو انڈیا منتقلی سے پہلے ان کے والد، چچا اور خاندان کے دیگر افراد رہائش پذیر تھے۔
انہوں نے بتایا کہ شاہ رخ خان کے والد کی انڈیا منتقلی کے بعد گھر ان کے پاس ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ایک تاریخی گھر ہے جو ’شاہ رخ خان کے گھر‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس سے دیکھنے کے لیے دور دور سے لوگ آتے ہیں۔ یاسین برہان نے بتایا کہ حکومت اس گھر کی تاریخی اہمیت کو دیکھ کر اسے قومی ورثہ قرار دے چکی ہے۔ جس کے بعد ان کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ گھر کی حالت خراب ہے، خستہ حال ہو چکا ہے لیکن وہ مرمت کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ شاہ رخ کا خاندانی گھر کئی منزل پر مشتمل تھا لیکن اب صرف گراونڈ اور اپر فلور ہی قابل استعمال ہے جبکہ باقی منزل کی حالت بہت خراب ہے۔ یاسین نے بتایا کہ گھر عمارتوں کے درمیان ہونے سے گرنے سے بچا ہوا ہے۔ ‘یہ گھر اب تاریخی ورثہ ہے۔ اس میں کام یا مرمت ہم خود نہیں کر سکتے۔ معمولی مرمت کے لیے بھی حکومت سے اجازت چاہیے جو کہ بہت مشکل مرحلہ ہے۔’
شاہ رخ خان کے پاکستانی بھانجے جس کا نام شاہ رخ خان ہی کے نام پر ہی رکھا گیا ہے، نے بتایا کہ حکومت ان کی والدہ کے نام ہدایت اور حکم نامہ وقتاً وقتاً جاری کرتی ہے۔ اور انہیں اپنی مرضی سے گھر میں کسی قسم کا کام کرنے سے روکتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گھر کی بحالی اور مرمت کی اشد ضرورت ہے ورنہ تاریخی ورثہ منہدم ہونے کا خدشہ ہے۔ ان کے مطابق اس وقت گھر کی بحالی کا کام کیا گیا تو تاریخی گھر کو اصلی حالت میں بحال کیا جاسکتا ہے۔
تاریخی گھروں کی مرمت کے لیے اجازت ضروری ہے، محکمہ آثار قدیمہ
محکمہ آثار قدیمہ کے آفیسر فضل ہادی نے وی نیوز کو بتایا کہ پشاور کے اندرون شہر میں کئی قدیمی گھر ایسے ہیں جنہیں تاریخی ورثہ قرار دیا گیا ہے اور اب ان گھروں کو گرانا یا بے جا تبدیلی کرنا غیر قانونی ہے اور ایسا کرنے پر تین سے پانچ سال کی سزا ہو سکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جن گھروں میں لوگ رہائش پذیر ہیں اور مرمت کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے محکمہ آثار قدیمہ سے اجازت لینا ضروری ہے۔ اور محکمے کی ٹیم کی نگرانی میں ہی کام کیا جا سکے گا۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت بھی تاریخی گھروں کی بحالی پر کام کر رہی ہے تاکہ قدیمی تاریخی ورثے کو اصلی حالت میں محفوظ کیا جا سکے۔
مزید اس ویڈیو رپورٹ میں