آج کل شاعری اورشعرا سوشل میڈیا پر گرما گرم مباحث کا محرک اورموضوع ہیں۔ بلکہ شعرا کی زندگیوں پر ٹی وی ڈرامے بن رہے ہیں جن میں ان کی متنازعہ زندگیوں اور شہرت کے لیے استعمال کیے جانے والے ہتھکنڈوں کی منظر کشی بھی کی جاتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سب شعرا ایسے ہوتے ہیں؟
تو اس کا جواب ہے کہ شہرت کی دوڑ میں آگے بڑھنے کی کوشش میں کچھ شعرا ایسی حرکتیں ضرور کر رہے ہیں لیکن سب ایسے نہیں۔ بلکہ اس عہد میں بھی ایسے شاعروں کی بڑی تعداد موجود ہے جو کسی صلے اور ستائش کی تمنا کے بغیر اپنے کام میں مگن ہیں۔ اس صورت حال میں مجھے پولینڈ سے تعلق رکھنے والی شاندار شاعرہ وسواواشمبورسکا(Wislawa Szymborska) کاخیال آیا جنھیں 1996ء میں نوبیل انعام برائے ادب سے نوازا گیا تھا۔ وہ پولینڈ میں کافی مقبول تھیں، لیکن باقی دنیا میں ان کے کام سے کم لوگ واقف تھے۔ نوبیل انعام ملنے کے بعد ان کی شاعری کے تراجم ہوئے اور وہ دنیا بھر میں مقبول ہوئیں۔
وہ کسی حد تک گوشہ نشین شاعرہ تھیں، نوبیل انعام ملنے کے اعلان پر ان کا ردعمل حیران کن تھا۔ ان کی بے نیازی اور کچھ دیگر عادات بہت دلچسپ تھیں۔ انھوں نے زیادہ نہیں لکھا۔ وہ جو کہا جاتا ہے، کم کہو، اپنا کہو، اچھا کہو، تو شمبور سکا اس کی عملی تصویر تھیں۔ انھوں نے زندگی میں لگ بھگ 4 سو نظمیں کہیں۔ انھیں نامساعد معاشی حالات کے باعث تعلیم ادھور ی چھوڑنا پڑی۔ کراکوشہر میں ایک چھوٹے سے رسالے میں ملازمت کرتے ہوئے انہوں نے اپنی زندگی گزاردی۔ وہ کہتی تھیں کہ ابتدائی ادبی زندگی میں مجھے انسانیت سے محبت تھی اور میں انسانیت کے لیے کام کرنا چاہتی تھی۔ پھر مجھے اندازہ ہو گیا کہ کوئی بھی نوع انسانی کو نہیں بچا سکتا۔
جس وقت نوبیل انعام کا اعلان ہوا، وہ ایک تقریب میں موجود تھیں۔ یہ تقریب پولینڈ کے مصنفین نے ان کے اعزاز میں برپا کی تھی۔ انھوں نے میڈیا سے بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے آرام سے کھانا ختم کرنے کو ترجیح دی۔ کئی مسلسل فون کالوں کے بعد، کہ جن میں ان کے دوست میلوسز کی کال بھی شامل تھی، بالآخر وہ پریس سے بات کرنے پر راضی ہوئیں اور رات کوایک ایسے مقام پر چلی گئیں جہاں رپورٹرز سے دور رہ سکیں۔
پریس میں ان کے نوبیل انعام اور اس پر ردعمل کی زیادہ تر خبریں ان کے دوستوں کی طرف سے دیے گئے بیانات سے سجائی گئیں۔ اگلا مشکل مرحلہ نوبیل انعام کی تقریب سے خطاب کا تھا۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ سب سے مشکل کام نوبیل انعام کی تقریب کے لیے تقریر لکھنا ہوگا۔ انھوں نے نوبیل انعام کی تاریخ کا مختصر ترین خطبہ دیا۔
ان کی ایک اور عجیب وغریب عادت کارڈز بھیجنے کی تھی جس کے لیے وہ خاص اہتمام کرتی تھیں۔ ہر سال، نومبر کے آغاز میں وہ اپنے دوستوں سے کٹ جاتیں اور کہتیں کہ میں اب کچھ دنوں کے لیے فنکار بن گئی ہوں؛ ان دنوں ان کے فلیٹ کا فرش اخبارات اور میگزینوں کے تراشوں سے بھرجا تا، جنھیں وہ کولاژ بنانے کے لیے استعمال کرتیں یا کارڈ وں پر چسپاں کرتی تھیں۔ انھوں نے یہ کام چالیس سال تک مسلسل کیا۔ وہ یہ کارڈز اپنے قریبی دوستوں اور پسندیدہ فنکاروں کو بھیجتی تھیں۔ ان میں ووڈی ایلن بھی شامل ہیں جنہوں نے یہ خوبصورت تحفہ ملنے پر کہا تھا’’یہ میرے لیے ہالی وڈ میں دیے گئے سونے کے مجسموں سے زیادہ اہم ہے‘‘۔
شمبورسکا کو چیزیں جمع کرنے کا بھی بہت شوق تھا، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ وہ درازوں کو انسان کی سب سے بڑی ایجادات میں سے ایک قرار دیتی تھیں۔ ان کے گھر میں36درازوں پر مشتمل الماری تھی جہاں وہ دیگر اہم و نایاب چیزوں کے ساتھ ساتھ پرانے پوسٹ کارڈز بھی محفوظ رکھتی تھیں۔ ان کے سیکرٹری اوربعدازاں شمبورسکا فاؤنڈیشن کی سربرا ہ مائیکل روسینک شمبورسکاکی درازوں سے محبت کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کے اپارٹمنٹ کو ’ دراز ‘کے نام سے بھی پکاراجاتا تھا۔ یہ ایک ایسا گودام تھاجو شاندار اشیاء سے بھرا پڑا تھا، جن میں سے زیادہ تر دوستوں سے حاصل کی گئی تھیں، جیسا کہ ایک جہاز کی شکل کا لائٹر جومیلوسز نے دیا تھا۔
خلوت نشینی کے باوجود وہ بہت بہادری سے سوال اٹھانے والی شاعرہ تھیں۔ شمبورسکا نے اپنے ملک کو دو مطلق العنان حکومتوں کے قبضے میں دیکھا، دونوں حکومتوں کادعویٰ تھا کہ وہ دنیا کے لیے بہتر مستقبل کی رہنمائی کریں گی۔ شمبورسکا کے بقول جب بھی انھوں نے کسی یقین کا دعویٰ کرنے والی حالت کا سامنا کیا تو اپنے شکوک مضبوط کر لیے۔ یہ چیزیں ان کی شاعری اور زندگی میں ایک پیچیدگی اور ابہام کی صورت میں ظاہر ہوئیں۔ انھوں نے اپنے نوبیل خطاب میں کہا۔
“ہر طرح کی اذیت دینے والے، آمر، جنونی اور بازاری رہنما طاقت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ ’جانتے ہیں‘، اور جو وہ جانتے ہیں وہ ان کے لیے ہمیشہ کے لیے کافی ہے۔ وہ اس کے علاوہ کسی چیز کے بارے میں جاننا نہیں چاہتے، جب تک کہ وہ ان کی دلیل کی قوت کو ختم نہ کردے۔ اور ہر وہ علم جو نئے سوالات کی طرف رہنمائی نہیں کرتا، مر جاتا ہے: ایسا علم زندگی کو بحال رکھنے کے لیے درکار درجہ حرارت کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اس ایک چھوٹے سے جملے ’میں نہیں جانتی‘ کو اتنی زیادہ اہمیت دیتی ہوں۔ یہ مختصر ہے لیکن یہ بہت بڑے پروں کے ساتھ اُڑتا ہے۔ یہ ہمارے اندر ہماری زندگیوں کے اندر پھیلتا چلا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ باہر بھی، جہاں چھوٹی سی معلق زمین معطل ہو کر رہ جاتی ہے۔ ”
ان کی بے نیازی اور’میں نہیں جانتی‘ کا ایک دلچسپ منظر وہ ہے جب ایک دن ان کے دوست ان کا نوبیل انعام کا میڈل ڈھونڈ رہے تھے، جو ان کی جمع شدہ نوادرات میں کہیں کھو گیا تھا۔