یہ پاکستان بھی ایک دلچسپ ملک ہے۔ یہاں ہر دن ایک نئی روداد لے کر آتا ہے۔ کبھی سیاسی گرما گرمی تو کبھی موسمیاتی گرمی۔ کبھی کوئی معاشرتی سیاپا تو کبھی معاشی چیلنجر۔ کوئی بھی دن میڈیا کے لیے خبروں کے لحاظ سے پھیکا نہیں رہتا۔ اس نگوڑے idiot box جس کو ہم حرف عام میں ٹیلی ویژن کہتے ہیں کا 24 گھنٹے پیٹ بھرنے کے لیے بھی کچھ نہ کچھ مواد چاہیے ہوتا ہے۔ اس کا پیٹ بھرنے کے لیے پھر اکثر اوقات میڈیا بھی کئی کہانیاں گھڑتا ہے، تنازعات پیدا کرتا اور ان کو اجاگر کرتا ہے۔پھر اپنے ہی پیدا کردہ تنازعات میں رات کو ٹاک شوز میں ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے ان کا حل تجویز کرتا ہے اور اس کے بعد اگلے دن کے مواد کا بندوبست شروع کر دیتا ہے۔ یہ ایک ایسا گھن چکر ہے جو کبھی رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
حالیہ تنازعات میں سے آج کل جو قابل ذکر ہے وہ یہ کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے درمیان آپس میں اختلافات پیدا ہوگئے ہیں اور ن لیگ کیونکہ ایک اتحادی حکومت کے ذریعے ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے تو پھر بجٹ کیسے پاس کروایا جائے گا۔ اور اگر پیپلزپارٹی ناراض ہوکر اتحادی حکومت سے باہر نکل جائے تو یہ موجودہ حکومت قائم نہیں رہ پائے گی۔ اور حکومت کے قائم نہ رہ پانے کا مطلب ہے موجودہ نظام یا سیٹ اپ جو تیار کیا گیا گیا ہے کیا وہ چل پائے گا؟یہ سب وہ سوال ہیں جو میڈیا خود ہی صبح شام اٹھاتا ہے اور ہر ٹاک شوز میں زیر بحث ہے آج کل۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان اختلافات ہیں بھی یا یہ میڈیا کی اپنی اختراع ہے؟ کیا پیپلزپارٹی واقعی ن لیگ سے ناراض ہو کر حکومتی اتحاد چھوڑ سکتی ہے؟ کیا پیپلزپارٹی یا یہ موجودہ سیٹ اپ افورڈ کرسکتا ہے کہ ملک کے مالی سال کا جو بجٹ پیش کیا گیا ہے وہ اتحاد ٹوٹ جانے کی وجہ سے منظور نہ ہوسکے؟ اور کیا پیپلزپارٹی اتنا بڑا قدم اٹھا بھی سکتی ہے یا نہیں؟ ان سب سوالوں کے اگر جواب rationally ڈھونڈیں تو ان میں سے ہر سوال کا جواب ’ناں‘ میں ملے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ ن کی اتحادی حکومت نے بہت ہی ٹف بجٹ پیش کیا ہے جس میں نہ صرف نئے ٹیکسز کی بھرمار کی گئی ہے بلکہ ان ٹیکسوں سے حاصل کردہ ٹارگٹ بھی ambitious ہونے کے ساتھ ساتھ تقریباً مشکل ہدف ہے۔ نومنتخب وزیر خزانہ نے ان نئے لگائے گئے ٹیکسوں کا نہ صرف دفاع کیا ہے بلکہ ملک چلانے کے لیے ان کو وقت کی ضرورت قرار دیا ہے۔
بجٹ پیش ہونے سے پہلے اور بعد میں بھی پاکستانی میڈیا نے یہ خبر چلائی کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے ہیں اور صدر آصف علی زرداری و دیگر پیپلزپارٹی رہنماؤں نے اتحاد سے باہر آنے کی دھمکی بھی دے دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے اپنی مرضی سے یہ اتحاد بنایا ہے؟ اس سوال کے جواب میں مجھے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والا وہ لطیفہ یاد آگیا کہ پیپلز پارٹی نے ن لیگ سے شکوہ کیا کہ ہمیں بجٹ پر اعتماد میں نہیں لیا۔ اس پر وز یراعظم شہباز شریف نے کہا کہ بجٹ پر تو انہیں بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اس لطیفے میں ایک کڑوی حقیقت ہے اور یہی سچ ہے کہ یہ اتحاد بنانے والے کوئی اور ہیں اور ان کی اجازت کے بغیر یہ دونوں پارٹیاں اتحاد سے باہر نہیں جا سکتے۔
دی نیوز کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن انصار عباسی نے ایک خبر رپورٹ کی ہے کہ پیپلز پارٹی کے دراصل پنجاب میں تحفظات ہیں اور پیپلز پارٹی کی طرف سے شکوہ کیا گیا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز ان کو پولیٹیکل سپیس نہیں دے رہی ہیں جو اتحاد کے وقت طے ہوا تھا اور نہ ہی ان کے منتخب اراکین کی منشا کے مطابق ان کے حلقوں میں ٹرانسفر پوسٹنگز کر رہی ہیں۔ میرے حساب سے تو اگر یہ سچ ہے تو پھر یہ ایک اچھی بات ہے۔ بیورو کریسی کے تقرر و تبادلے سیاسی بنیادوں کی بجائے خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر ہونے چاہیں۔
ان تنازعات اور اختلافات کی بنیاد پر میڈیا سوالات اٹھا رہا ہے کہ کیا حکومت پیپلز پارٹی کے بغیر بجٹ پاس کروا لے گی اور کیا پیپلز پارٹی بجٹ منظوری کے لیے ووٹ دے گی؟ اگر موجودہ ملکی معاشی اور سیاسی حالات کو دیکھا جائے اور اس موجودہ نظام کو در پیش چیلنجر کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات کنفرم ہوتی ہے کہ نہ یہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا اتحاد کہیں جا رہا ہے کیونکہ ان کی جوڑی کہیں اور بنی ہے اور نہ ہی بجٹ کی منظوری میں کوئی دقّت پیش آئے گی۔ یہ سب میڈیا کی طرف سے پیالی میں طوفان کھڑا گیا ہے جو کہ جلد ہی بیٹھ جائے گا اور سب پرانی تنخواہ پر کام کرتے ہوئے اپنا اپنا کام کریں گے۔