امریکا مشرق وسطیٰ کے سینٹر اسٹیج پر تھا لیکن جیسے ہی سعودی عرب اور ایران نے مصافحہ کیا، دیوار سے جا لگا اور چین نے اس کی جگہ لے لی۔ عمومی خیال یہی ہے اور نیویارک ٹائمز کے پیٹر بیکر نے بھی کچھ اس قسم کی بات کہی ہے۔
شی جن پنگ کی قیادت میں عوامی جمہوریہ چین نے عالمی سیاست میں حیرت انگیز پیشرفت کی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ اس ملک کی توجہ اب تک داخلی امور تک محدود رہی تھی یا اپنے استحکام پر لیکن سعودی-ایران پیشرفت کے بعد اب اسے ایک ایسا بین الاقوامی کھلاڑی تسلیم کیا جا رہا ہے جو اقوامِ عالم کے مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اس اعتراف کے باوجود یہ بیان مکمل صورتحال واضح نہیں کرتا کیونکہ سعودی عرب سے شروع ہوکر پورے خطہ عرب کو اپنی گرفت میں لینے والی تبدیلیوں کا ایک محرک اور بھی ہے۔ یہ وہی شخص ہے جس کی فکر اور کردار نے گزشتہ چند برسوں کے دوران پہلے سعودی عرب جیسے معاشرے میں تبدیلی کی جوت جگائی، اب یہ تبدیلیاں علاقائی امن و سلامتی کے ایک نئے دور کا آغاز کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس تجزیے سے اگر کسی کا دھیان ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی طرف جاتا ہے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ نکتہ پیش نظر رہا اور ابلاغ عامہ کے شور شرابے میں توجہ کسی دوسری جانب بھٹک نہ گئی تو مشرق وسطیٰ میں رونما ہونے والی تبدیلی کا درست تجزیہ ممکن ہوگا۔
قوموں کے باہمی تعلقات میں دھوپ چھاؤں آتی رہتی ہے۔ اس میں سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات کو بھی مفر نہیں لیکن یہ بھی درست ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان اپنے اپنے مفادات سے وابستہ رہتے ہوئے اعتماد کا مضبوط رشتہ استوار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سعودی عرب اور مغرب قابلِ اعتماد اتحادی ہیں۔ کسی ایسی صورتحال میں کیا یہ قرین قیاس ہوسکتا ہے کہ ایسا کوئی اتحادی جس کے پہلے سے موجود بندوبست میں تمام یا بیشتر مقاصد پورے ہو رہے ہوں، وہ دامن جھاڑ کر ایک اتحادی سے ناتا توڑ کر کسی دوسری طاقت کے ساتھ راز و نیاز شروع کردے؟
سیاسیات عالم میں ایسے بہت سے واقعات ہو گزرے ہوں گے لیکن اس طرح کے واقعات، واقعات نہیں کہلاتے، حادثات کہلاتے ہیں۔ حادثات کا نتیجہ کیا ہوتا ہے، تاریخ نے ان کی تباہ کاریوں سے آگاہ کرنے میں کبھی کوتاہی نہیں کی لہٰذا سرد و گرم چشیدہ چین اور تلوار کی دھار پر بڑی نفاست کے ساتھ سفارتکاری کرنے والے سعودی عرب سے اگر کوئی یہ توقع رکھتا ہے کہ انہوں نے دنیا کو ایک نئی کشمکش میں مبتلا کردیا ہے تو اس سے زیادہ سادہ یا یوں کہیے کہ سطحی بات کوئی اور ہو نہیں ہوسکتی۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک نہایت سوچی سمجھی پیشرفت ہے جس میں دنیا کی سب سے بڑی اور اپنی قوت کے بارے میں حساس طاقت کو دوسروں کے قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کے لیے آمادہ کیا گیا ہے۔ یہ حقیقت ان الفاظ میں بیان کی جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ اس پیشرفت کا تعلق دنیا کو بحرانوں سے نکال کر مفاہمت کی طرف گامزن کرنا ہے اور یہ کوئی اچانک رونما ہونے والی تبدیلی نہیں بلکہ اس کے پس پشت طویل سوچ بچار اور بھرپور تیاری ہے۔
اب یہاں اگر یہ حقیقت بھی بیان کردی جائے تو مناسب ہوگا کہ یہ واقعہ دنیا کو یک قطبی (Unipolar) سے کثیر قطبی (Multipolar) بنانے کی طرف ایک سنجیدہ قدم ہے۔ اس کارنامے کا کریڈٹ دینے کا جب وقت آئے گا تو کوئی شبہ نہیں کہ عالمی مدبرین کی صف میں جو لوگ شامل ہوں گے، ان میں ایک نمایاں شخصیت شہزادہ محمد بن سلمان کی ہوگی۔ اس تمہید کے بعد اب یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ پیشرفت مشرق وسطیٰ اور خاص طور پر اس خطے میں کیا اثرات مرتب کرے گی جس میں ہم رہتے ہیں۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان اختلافات کی نوعیت کیا تھی؟ اختلافات 4 دہائیوں کی سرحد عبور کرجائیں تو بات کچھ کی کچھ بن جاتی ہے یعنی گنجلک ہوکر ناقابلِ حل ہوجاتی ہے۔ ان دونوں ممالک کے درمیان مسائل کی صورت بھی کچھ اسی طرح کی ہوسکتی ہے لیکن اس کی بنیاد انقلابِ ایران کے بعد انقلابیوں کے اس جذبے یا یوں کہیے کہ کسی قدر غلط فہمی سے تھی کہ اس انقلاب کو ایران کی حدود سے باہر برآمد بھی کیا جاسکتا ہے۔
انقلاب کی برآمد کی خواہش نے خطے کو بے پناہ متاثر کیا۔ کچھ جنگیں ہوئیں اور بہت سی پراکسی جنگیں۔ ہر دو قسم کی جنگوں میں ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ جنگ ہوجائے اور تباہی اور بربادی نہ ہو، یہ ممکن نہیں۔ ان جنگوں کے نتیجے میں بھی ہر قسم کی بربادی ہوئی جس کے اثرات خود ان معاشروں پر بھی مرتب ہوئے اور ارد گرد بھی پھیلے۔ محض تذکرے کے طور پر ذکر کیا جائے تو غیر مناسب نہ ہوگا کہ ہمارے یہاں جو فرقہ وارانہ بدامنی پیدا ہوئی اور اس کے نتیجے میں نفرتوں میں اضافہ ہوا، ایک شاخسانہ یہ اس انقلاب یا انقلاب کے نتیجے میں جنم لینے والی خواہشات کا بھی تھا۔
بعد کی دہائیوں میں یہ سلسلہ لبنان تک پہنچا۔ پھر یمن اور شام تک۔ صرف یمن کی لڑائی میں جانی نقصانات ڈھائی سے 3 لاکھ تک پہنچتے ہیں۔ اس قسم کی جنگیں جان و مال کے نقصانات تو کرتی ہی ہیں، قوموں کی روح تک کو مجروح کردیتی ہیں۔ سعودی-ایران پیشرفت سے پہلے سعودی یمن محاذ پر اگرچہ غیر معمولی بہتری پیدا ہوچکی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وسط مارچ میں جو تبدیلی سامنے آئی ہے، اس کی ابتدا بہت پہلے ہوچکی تھی جسے دیگر عالمی قوتوں کی حمایت حاصل تھی۔
اس سلسلے میں امریکی خیر مقدم بتاتا ہے کہ وہ نہ صرف اس سے خوش ہے بلکہ وہ کسی نہ کسی سطح پر اس کا معاون ہے بلکہ تائید کنندہ بھی ہے۔ ہمارے خطے یعنی پاکستان کے لیے اس میں اطمینان کے کئی پہلو ہیں جن میں سب سے نمایاں وہ منافرت ہے جس نے پاکستانی سماج کے تار و پود کو بکھیر کر رکھ دیا تھا۔ یہ سب مظاہر بہت بڑی تبدیلیوں کا عندیہ دیتے ہیں اور ان میں سب سے بڑی تبدیلی ایران کے اس رویے کی تبدیلی ہے جو صرف خطے پر منفی طور پر اثر انداز نہیں ہوئی بلکہ خود ایران کو بھی اس نے بُری طرح متاثر کیا ہے۔ ان مسائل میں یقینی طور ایران کا ایٹمی پروگرام بھی شامل ہے جس پر اس کے پڑوسیوں کے تحفظات رہے ہیں۔
سعودی-ایران تعلقات کی بحالی ایران کو یقینی طور پر سفارتی اور اقتصادی تنہائی سے نکالنے میں مددگار ثابت ہوگی لیکن اس کے کئی فوری فوائد پاکستان، چین اور امریکا کو بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری کا معاملہ ہو یا افغانستان کے راستے آزادانہ آمد و رفت اور تجارت کے معاملات، ان سب میں حائل رکاوٹیں دُور ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔
امکان یہی ہے کہ اس کام کی ابتدا سعودی عرب اور امریکا سمیت دیگر خلیجی ممالک کے نہ صرف اقتصادی راہداری پر تحفظات محدود بلکہ ختم ہوجائیں گے بلکہ اس میں ان کی شرکت کا امکان بھی پیدا ہوجائے گا۔ اس کا ضمنی فائدہ پاکستان کو ہوگا یعنی بھارت کے درمیان گوادر اور چاہ بہار پر کشمکش میں نمایاں کمی رونما ہوگی اور پاکستان کو اپنے مقاصد کے حصول میں ممکنہ طور پر آسانیاں میسر آئیں گی۔
دونوں ملکوں کے درمیان پیشرفت سے جیسے پاکستان مستفید ہوسکتا ہے، بالکل اسی طرح خطے کے دیگر ممالک پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اس سلسلے میں شام کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کی بحالی کی خبر تو آ ہی گئی ہے، قطر کی تنہائی میں بھی یقینی طور پر کمی ہوگی۔
رہ گیا پاکستان کا موجودہ بحران، تو وہ یقینی طور پر اس پیشرفت کے مثبت اثرات محسوس کرے گا اور خطے کی کشیدگی میں کمی خوشحالی کی راہ ہموار کرے گی۔ سبب یہ ہے کہ سعودی عرب اس خطے کو اقتصادی اعتبار سے یورپی یونین جیسے اقتصادی اتحاد کی طرف بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ کوئی خطہ جب اتنے بڑے انقلاب کی طرف بڑھ رہا ہو، ایسی صورت میں دیکھا یہی گیا ہے کہ مختلف قوموں اور خطوں کو تصادم اور غربت کی گہرائی میں دھکیلنے والے عوامل کا علاج یا کر لیا گیا ہوتا ہے یا مکمل ہو رہا ہوتا ہے۔