بیرسٹر گوہر خان نے کہا ہے کہ کوئی بھی آپریشن ہو اس کے لیے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا ضروری ہے، کوئی بھی کمیٹی کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، آئین کے مطابق پارلیمان سپریم ہے۔ ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ پارلیمان کو اعتماد میں لیے بغیر کوئی آپریشن شروع نہ ہو۔
سنی اتحاد کونسل کے رہنماؤں کے ہمراہ پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آج ہم نے بات کرنے کی کوشش کی تو مائیک بند کر دیے گئے،اس لیے ہم نے احتجاجی طور پر پارلیمنٹ سے واک آؤٹ کیا ہے۔
عسکری قیادت ایوان میں آکر ان کیمرہ بریفنگ دے
ان کا کہنا تھا آپریشن استحکام شروع ہورہا ہے، کوئی بھی آپریشن ہو چاہے، انٹیلیجنس بیسڈ ہو یا کوئی اور اس کے لیے پارلیمان کو اعتماد میں لینا ضروری ہے، ہمیں پوائنٹ آف آرڈر میں یہ نقطہ نظر اٹھانا تھا کہ ہماری عسکری قیادت نے جیسے پہلے پارلیمان میں آکر ان کیمرہ بریفنگ دی تھی، بتایا تھا کہ کیا صورتحال ہے، ویسے ہی اب ہو، چاہے کوئی بھی کمیٹی ہو وہ پارلیمان سے بالاتر نہیں ہوسکتی تو کوئی بھی آپریشن پارلیمان کو اعتماد میں لیے بغیر شروع نہ ہو۔
مزید پڑھیں
گوہر خان کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں اپوزیشن رہنما ثنا اللہ مستی خیل نے پنجابی میں الفاظ ادا کیے، وہ الفاظ ان کی زبان سے غلطی سے نکل گئے لیکن انہوں نے اپنے الفاظ پر معذرت کی یہ کسی بھی ممبر قومی اسمبلی کے لیے بڑی بات ہے۔
اپوزیشن ارکان نے اسمبلی اجلاس سے واک آؤٹ کیوں کیا؟
انہوں نے کہا کہ آج اتوار کو بجٹ کا خصوصی سیشن چل رہا ہے، آج بھی ہم نے اپنی بھرپور موجودگی رکھی ہے۔ حکومت کے اراکین پارلیمان میں موجود نہیں ہیں۔ ہم نے پوائنٹ آف آرڈر مانگا لیکن ہمیں ٹائم نہیں دیا گیا۔ ہمیں ٹائم نہیں ملا اس لیے ہم نے اجلاس سے واک آوٹ کر دیا۔
ہم کسی آپریشن کی حمایت نہیں کرتے، اسد قیصر
اس موقع پر اسد قیصر کا کہنا تھا کہ ابھی خورشید شاہ سے بات کی کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟میڈیا بھی کنٹرول میں ہے، ہمارے نمائندے اسمبلی نہیں جا سکتے۔ آپریشن ’عزمِ استحکام‘ کے تناظر میں ان کا کہنا تھا کہ آج تک کون سا آپریشن کامیاب ہوا ہے؟ واضح طور پر کہتا ہوں ہم کسی آپریشن کی حمایت نہیں کرتے۔
اسد قیصر نے کہا کہ کل مولانا فضل الرحمان سے بھی میں نے اس پر بات کی، بتائیں آج تک کونسا آپریشن کامیاب ہوا ہے، یہ بتائیں کہ پہلے آپریشنز کے نتائج کیا آئے ہیں، اسمبلی تو بحث کے لیے ہوتی ہے، یہ ایک مارشلائز ذہنیت ہے۔
عمر ایوب کا کہنا تھا کہ اس وقت ہمارا گلہ اسپیکر سے ہے ان کا رویہ اپوزیشن کے ساتھ قابل تشویش ہے۔ درحقیقت فارم 45 کے تحت 180 سیٹیں تحریک انصاف کی ہیں۔ وفاق نے 198 ارب روپے خیبر پختونخوا کو دینے ہیں۔
بجٹ اقتصادی دہشت گرد کا بجٹ، مسترد کرتے ہیں
اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ یہ حکومت اینٹی اسٹیٹ ہے۔ یہ بجٹ اقتصادی دہشت گرد کا بجٹ ہے اسے مسترد کرتے ہیں۔ کسی قسم کا آپریشن کرنے سے پہلے پارلیمان کو اعتماد میں لیں۔ چین سے آئے ساتھیوں نے واضح طور پہ کہا تھا کہ سی پیک پر سیکیورٹی خدشات ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کئی بار کہہ چکے ہیں ملک میں امن رول آف لاء سے آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ بجٹ ایک بوگس، اقتصادی دہشت گردی کا بجٹ ہے، حکومت کے اپنے اتحادی اس بجٹ کو انڈورس نہیں کر رہے۔ بانی پی ٹی آئی نے بار بار کہا کسی اور کی جنگ میں خود کو نہیں دھکیل سکتے۔ سی پیک کے حوالے سے سکیورٹیز ایشوز پر سمجھوتا نہیں کرسکتے۔ ملک میں رول آف لاء ہوگا تب ملک ترقی کرے گا۔ پنجاب میں مریم نواز کی فارم 47 کی حکومت ہے۔