سعودی عرب اور ایران کے درمیان رواں ماہ برسوں کی کشیدگی کے اچانک خاتمے اور دونوں ممالک کے درمیان چین کی ثالثی میں کیے گئے معاہدے نے پورے خطے کی ترقی سے متعلق امیدیں جگا دی ہیں اور اس مثبت پیشرفت سے مستفید ہونے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے جسے سالہا سال سے دونوں ممالک کے درمیان تناو کی وجہ سے شدید مشکل صورتحال کا سامنا تھا۔
اس حوالے سے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے خارجہ امور کے ماہرین اور متعلقہ حکام کا کہنا تھا کہ ایک دیرینہ دوست اور ایک پڑوسی کے درمیان کشیدگی کے اچانک خاتمے کو اسلام آباد میں تازہ ہوا کا ایک جھونکا سمجھا جا رہا ہے جس سے معاشی مشکلات کے شکار پاکستان کے لیے ترقی اور استحکام کی نئی راہیں کھلیں گی۔
اس ماہ کی 10 تاریخ کو بیجنگ سے یہ اعلان سامنے آیا تھا کہ سعودی عرب اور ایران کئی برسوں کی کشیدگی کو ختم کرنے اور سفارتی تعلقات دوبارہ بحال کرنے اور 2 ماہ کے اندر ایک دوسرے کے ملک میں سفارتخانے کھولنے پر رضامند ہوگئے ہیں۔
سعودی سرکاری پریس ایجنسی کی جانب سے جاری اعلامیے میں بھی یہ بتایا گیا تھا کہ چین کی میزبانی میں طے پانے والے معاہدے کے تحت دونوں ممالک 2001ء میں ہونے والے سیکیورٹی تعاون کے معاہدے اور 1998ء میں ہونے والے تجارت، معیشت اور سرمایہ کاری کے معاہدے کو بھی فعال کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں۔
سعودی عرب نے 2016ء میں سفارتی تنصیبات پر مظاہرین کے حملے کے بعد ایران کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو کم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
پاکستان کے لیے معاہدے میں کیا ہے؟
اس معاہدے کے پاکستان پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے سابق سفارتکار ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ ‘سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہم آہنگی نے پاکستان کے لیے ایک زیادہ مستحکم ہوتے ہوئے خطے میں نئے اقتصادی اقدامات سے متعلق سفارتی امکانات کو بڑھا دیا ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان طویل عرصے سے ایک اسٹریٹجک اتحادی اور ایک پڑوسی کے درمیان تعلقات کو متوازن کرنے کوشش کرتا رہا ہے۔ اب وہ بغیر کسی اندیشے کے ایران کے ساتھ بہتر تعلقات کو آگے بڑھا سکتا ہے’۔
پاکستان نے 10 مارچ کو معاہدہ سامنے آنے کے بعد سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ایک ‘اہم سفارتی پیشرفت’ قرار دیا تھا۔ دفترِ خارجہ نے اس پیشرفت کے تناظر میں سعودی عرب اور ایران کی معاملہ فہم قیادت کی تعریف کی تھی۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ پاکستان دونوں برادر ممالک کے درمیان خلیج کو ختم کرنے کی کوششوں کی مسلسل حمایت کے ساتھ مشرق وسطیٰ اور خطے میں تعمیری کردار ادا کرتا رہے گا۔
‘سعودی۔ایران تناؤ پاکستان کے لیے بڑا مسئلہ تھا’
وزیرِاعظم پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے مشرقِ وسطی طاہر اشرفی نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘ایران۔سعودی عرب معاہدہ پاکستان کے لیے خیر کی خبر ہے کیونکہ پاکستان کے لیے دونوں ممالک کے درمیان لڑائی کی صورتحال ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی تھی’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ایران پاکستان کا پڑوسی ملک ہے جبکہ سعودی عرب دیرنیہ دوست ہے جس نے ہر مشکل میں پاکستان کی مدد کی ہے۔ ان دونوں کی لڑائی کی وجہ سے پاکستان کے لیے ویسی ہی نازک صورتحال پیدا ہوگئی تھی جیسی کسی گھر میں دو عزیزوں کی لڑائی سے پیدا ہوتی ہے۔ اب دونوں ممالک کے درمیان معاملات ٹھیک ہوں گے تو پاکستان بھی مستفید ہوگا’۔
مولانا طاہر اشرفی نے کہا کہ سعودی عرب کے وزیرِ خزانہ نے اپنے حالیہ بیان میں بتایا ہے کہ ان کا ملک ایران میں فوری سرمایہ کاری شروع کرسکتا ہے جو ایک خوش آئند پیشرفت ہے۔
ان کے مطابق سعودی ولی عہد اور وزیرِاعظم شہزادہ محمد بن سلمان عالم عرب ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کو بھی معاشی طور پر مضبوط اور مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں۔
طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ ‘سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدے سے پاکستان میں فرقہ ورانہ تناؤ کی کیفیت میں بھی کمی آئے گی حالانکہ سعودی عرب نے کبھی اس حوالے سے پاکستان میں مداخلت نہیں کی تاہم پھر بھی پاکستان میں مزید بہتر فضا پیدا ہوگی جس سے پاکستان بہت خوش ہے’۔
چین کی فتح امریکا کے لیے دھچکا؟
امریکا میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی کے مطابق سعودی-ایران معاہدہ امریکا کے لیے ایک بہت بڑا سفارتی دھچکا ہے کیونکہ یہ چین کی ثالثی سے ممکن ہوا ہے جسے واشنگٹن نے معاہدے میں ثالثی سے روکنے کی بہت کوشش کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘چین نے ایک بڑی سفارتی فتح حاصل کی ہے اور اپنے بڑھتے ہوئے عالمی اثر و رسوخ کا مظاہرہ کیا ہے اور مشرق وسطیٰ میں خود کو ایک بڑے کھلاڑی کے طور پر بھی منوایا ہے’۔
انہوں نے مزید کہا کہ چین سعودی عرب اور ایران دونوں ممالک کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور امریکا کے برعکس امن ساز کا کردار ادا کرنے کے لیے اس کے دونوں ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔
ملیحہ لودھی کے مطابق اس تازہ پیشرفت سے فی الحال امریکا سفارتی محاز پر پس منظر میں چلا گیا ہے۔ ان کے مطابق ایران کے جوہری پروگرام پر واشنگٹن اور تہران کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے وقت ایران کو الگ تھلگ کرنے کی امریکی کوشش کو ایک بڑا دھچکا لگا ہے۔ ‘سعودی عرب اور اسرائیل تعلقات کو معمول پر لانے کے امریکی منصوبے کو بھی مستقبل قریب کے لیے ناکام بنا دیا گیا ہے’۔
ایران سے تجارت بہتر ہوگی مگر امریکا ناراض ہوسکتا ہے؟
امریکی تھنک ٹینک وڈرو ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ اگر یہ معاہدہ برقرار رہتا ہے تو پاکستان کو ایران کے ساتھ بہتر تجارتی تعلقات استوار کرنے کے لیے مزید سفارتی گنجائش مل سکتی ہے جس سے اسلام آباد کی تہران کے ساتھ تجارت کو فروغ ملے گا۔
تاہم ان کے مطابق پھر بھی اس حوالے سے پاکستان کو سفارتی بارودی سرنگوں سے گزرنا ہوگا کیونکہ سعودی عرب اور ایران ممکنہ طور پر دونوں ہی معاشی اور سیاسی عدم استحکام کے شکار پاکستان کے ساتھ تعلقات کو احتیاط سے آگے بڑھائیں گے۔
مائیکل کوگلمین کے مطابق ‘پاکستان کو خود بھی تہران کو شامل کرنے میں محتاط رہنا ہوگا کیونکہ وہ واشنگٹن کو پریشان کرنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہے گا، جو ایک اہم پاکستانی تجارتی شراکت دار ہے اور جس کا آئی ایم ایف پر بھی اثر ہے۔ لہٰذا پاکستانیوں کے لیے اس معاہدے سے ہونے والے معاشی فوائد حقیقی سیاست کے مختلف پہلوؤں کی وجہ سے بے اثر ہوسکتے ہیں’۔
معاہدے کے سی پیک پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ‘چین پاکستان اقتصادی راہدری منصوبے کو جن رکاوٹوں کا سامنا ہے ان کا ایران یا سعودی عرب سے زیادہ تعلق نہیں بلکہ اصل معاملہ چین اور پاکستان کے تعلق پر منحصر ہے۔ چین اور خاص طور پر پاکستان میں معاشی مسائل اور پاکستان میں سیکیورٹی خطرات کے بارے میں بیجنگ کے خدشات کی وجہ سے سی پیک کی رفتار سُست پڑگئی ہے۔ اگر ایران-سعودی عرب معاہدہ کامیاب ہوتا ہے تب بھی یہ مسائل جادوئی طور پر دُور نہیں ہوں گے’۔
پاکستان ایران کے درمیان تعلقات میں بریک تھرو کا امکان؟
ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے ارنا کے پاکستان میں بیورو چیف افضل رضا نے وی نیوز کو بتایا کہ معاہدے سے پاکستان میں حکام نے سکھ کا سانس لیا ہے کیونکہ ان کی بڑی پریشانی ختم ہوگئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سعودی۔ایران کشیدگی کی وجہ سے بہت دباؤ میں تھا جس کے باجود ماضی میں پاکستان نے دونوں ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات میں مشکل توازن کو برقرار رکھا۔
یاد رہے کہ 2016ء میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات ختم ہونے کے باوجود پاکستان کی اعلیٰ عسکری اور سیاسی قیادت نے ایران کے دوروں کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ ‘پاکستان کو احساس تھا کہ ایران سے ناراضگی ہوگی تو پاکستان کی سرحد پر کشیدگی کی صورتحال ہوسکتی ہے اسی وجہ سے دونوں ممالک نے رابطے بحال رکھے’۔
ایرانی صحافی کے مطابق ‘اس معاہدے کے بعد پاکستان کے سول اور عسکری حکام نے انہیں بتایا ہے کہ ایران کے ساتھ اسلام آباد کا بڑا بریک تھرو ہونے کا امکان ہے اور پاکستان اور ایران کے درمیان نہ صرف فوجی تعلقات بہتر ہوں گے بلکہ جلد اعلیٰ سطح کے دورے بھی متوقع ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ اب پاکستان ایران گیس پائپ لائن بحال ہوسکتی ہے جس کا تہران کو شدت سے انتظار ہے۔
معاہدہ خطے کے امن کی نوید ہے: سعودی صحافی
سعودی اخبار عرب نیوز کے ایڈیٹر فیصل جے عباس کے مطابق سعودی-ایران معاہدہ پورے خطے کے امن کی نوید ہے۔ عرب نیوز میں لکھے اپنے مضمون میں انہوں نے لکھا کہ ‘جہاں تک علاقائی نتائج کا تعلق ہے، ان کی فہرست بہت طویل ہے لیکن اگر ایران معاہدے پر قائم رہے تو ہم صرف ایک ایسی دنیا کے لیے جاگنے کا تصور کرسکتے ہیں جس میں یمن، شام، عراق اور لبنان امن اور ترقی کی منازل طے کررہے ہوں۔ کیا یہ ایک بہت بڑی توقع ہے؟ جی ہاں، مگر کیا یہ ایسی خواہش ہے جس کا پیچھا کیا جائے؟ بالکل!
انہوں نے مزید لکھا کہ ‘اس معاہدے کے کامیاب ہونے کے لیے اور اس کے نہ صرف اس خطے بلکہ پوری دنیا پر پڑنے والے مثبت اثرات کے پیش نظر امریکا اور باقی عالمی برادری کو ہر ممکن طریقے سے اس کی حمایت کرنی چاہیے’۔