پنجاب کابینہ کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان اور دیگر پارٹی رہنماؤں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ قائم کرنے کی منظوری دینے سے متعلق دستاویزات منظر عام پر آگئیں۔ دستیاب دستاویزات کے مطابق، صوبائی کابینہ نے عمران خان اور دیگر پارٹی رہنماؤں کی جانب سے ریاست مخالف بیانیہ پھیلانے اور منفی پروپیگنڈا کرنے کو بغاوت قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف قانونی کارروائی کی منظوری دی۔
وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو میں تصدیق کی ہے کہ صوبائی کابینہ نے عمران خان اور دیگر پارٹی رہنماؤں کے خلاف قانونی کارروائی کی منظوری 24 مئی کو دی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ سیکریٹری داخلہ نے پنجاب کابینہ کو اس معاملے پر خصوصی بریفنگ دی تھی جس کے بعد صوبائی کابینہ نے بانی پی ٹی آئی اور دیگر پارٹی رہنماؤں کے خلاف کارروائی کی منظوری دی۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب کابینہ نے اداروں کیخلاف ’نفرت انگیز بیانیہ‘ بنانے پر عمران خان کے خلاف کارروائی کی منظوری دیدی
دستیاب دستاویزات کے مطابق، سیکریٹری داخلہ نے بریفنگ کے دوران کابینہ ارکان کو بتایا کہ جی ٹی وی کے رپوٹر رئیس احمد خان نے کمشنر راولپنڈی ڈویژن کو ایک دراخوست جمع کروائی جس میں الزام عائد کیا گیا کہ وہ 6 اپریل 2024 کو نیب ریفرنس کی کوریج کے لیے ساتھی صحافیوں کے ساتھ اڈیالہ جیل میں موجود تھے، اس دوران عمران خان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے آرمی اور عدلیہ پر الزامات سگین الزمات لگائے۔
دستیاب دستاویزات کے مطابق، درخواستگزار نے اپنی درخواست میں الزام عائد کیا کہ بانی پی ٹی آئی پاکستان کوتوڑنے کی منظم سازش کررہے ہیں، سیاسی مقاصد کے لیے بانی پی ٹی آئی اور پارٹی ورکرز ریاست مخالف کام کررہے ہیں۔ عمران خان پر مزید الزام عائد کیا گیا کہ وہ منظم سازش کے ذریعے موجودہ صورتحال کومشرقی پاکستان اور 1971ء کی سیاسی صورتحال سے تشبیہہ دے رہے ہیں اور انہوں نے پارٹی رہنماؤں کو پاکستان مخالف بیانیے کا ٹاسک سونپا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 9 مئی اور 1971 کے واقعات میں واضح مماثلت دکھائی دیتی ہے، عمران خان
دستاویزات کے مطابق، بریفنگ میں بتایا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان نے عمران خان کی مشاورت کے بعد اڈیالہ جیل کے باہر ریاست مخالف بیان دیے اور مشرقی پاکستان کی بات دہرائی، بانی پی ٹی آئی اور دیگر پارٹی ارکان کا عمل بغاوت کے زمرے میں آتا ہے، ان کے بیانات سے عوام میں منفی پروپیگنڈا پیدا ہوا ہے۔
بریفنگ میں کہا گیا کہ بانی پی ٹی آئی و دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں نے پاکستان پینل کوڈ کے سیکشنز کی خلاف ورزی کی لہٰذا ان کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 121، 121 اے، 131 اور 153 کی دفعات کے تحت کارروائی کی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: سنہ 1971 میں فوج تو میدان میں ڈٹی ہوئی تھی لیکن یحییٰ خان نے ہتھیار ڈلوادیے، عمران خان
بانی پی ٹی آئی کے جرم میں ملوث ہونے سے متعلق بریفنگ کے بعد پنجاب کابینہ نے کریمینل پروسیڈنگ کوڈ 1898ء کے سیکشن 196 کے تحت بانی پی ٹی آئی و دیگر پارٹی رہنماؤں کے خلاف کارروائی کی منظوری دی اور ایڈیشنل کمشنرکوآرڈینیشن، کمشنر آفس راولپنڈی کو کریمینل کمپلینٹ فائل کرنے کا اختیار سونپ دیا۔
پنجاب کابینہ کا اقدام لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج
سابق وزیر اعظم عمران خان نے پنجاب حکومت کی جانب سے سنگین کیسز کی منظوری کا اقدام لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کررکھا ہے۔ عمران خان نے وکیل لطیف کھوسہ کی وساطت سے درخواست دائر کی تھی جس میں پنجاب حکومت، انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب اور وزارت داخلہ سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ عمران خان سابق وزیراعظم اور باعزت شہری ہیں، بانی پی ٹی آئی اس وقت مختلف مقدمات میں اڈیالہ جیل میں قید ہیں، پنجاب حکومت نے عمران خان سمیت دیگر رہنماؤں کے خلاف سنگین مقدمات درج کرنے کی منظوری دی، پنجاب کابینہ کا اقدام آئین کے آرٹیکل 10 کی خلاف ورزی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کا اپنے اکاؤنٹ سے ہونے والی ٹوئٹ سے کوئی تعلق نہیں، بیرسٹر گوہر
درخواست میں عمران خان نے استدعا کی کہ عدالت پنجاب حکومت کی جانب سے سنگین مقدمات کی منظوری کو کالعدم قرار دے۔ عدالت نے عمران خان کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے پنجاب حکومت سے اس حوالے سے جواب طلب کر رکھا ہے۔
واضح رہے کہ سابق وزیراعظم اور بانی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور متعدد سینیئر پارٹی رہنما اپنے بیانات میں 9 مئی کے واقعات کو 1971 کے واقعات سے تشبیہہ دے چکے ہیں اور حکومت سے حمودالرحمان کمیشن رپورٹ کو شائع کرنے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔