اسرائیلی اخبار ہاریٹز کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج نے گزشتہ سال 7 اکتوبر کو ہینیبل ڈائریکٹو کا حکم دیا تھا جو ایک متنازعہ اسرائیلی فوجی پالیسی ہے جس کا مقصد کسی بھی قیمت پر دشمن قوتوں کے ہاتھوں اسرائیلی فوجیوں کو اغوا ہوجانے سے روکنا ہوتا ہے خواہ اس کوشش میں ان فوجیوں کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔
اخبار نے اسرائیلی فوجیوں اور اعلیٰ فوجی افسران کی گواہیوں پر مبنی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ گزشتہ اکتوبر میں حماس کے حملے کے دوران اسرائیلی فوج ایک حکم جاری کیا کہ ’ایک گاڑی بھی غزہ واپس نہیں جائے گی‘۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کی رفح پر مسلسل بمباری، 87 فلسطینی شہید
اس وقت اسرائیلی فوج اس بات سے واقف نہیں تھی کہ ان کے فوجی کس حد تک اغوا ہو رہے ہیں لیکن وہ یہ جانتی تھی کہ ایسا ہو رہا ہے۔ یہ واضح تھا کہ فوج کے اس پیغام کا کیا مطلب ہے اور اغوا ہونے والے افراد کا کیا حشر ہوگا۔
حماس کے مطابق 7 اکتوبر کو اس نے درجنوں اسرائیلیوں کو یرغمال بنایا جن میں سے اکثر اب تک اس کی قید میں ہیں یا غزہ پر اسرائیلی فضائی حملوں میں مارے گئے ہیں۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ پکڑے جانے والوں میں سے بہت سے شہری تھے نہ کہ فوجی جن پر ہنیبل کی ہدایت لاگو کی جاسکتی۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ حماس کے زیرقیادت حملوں میں اسرائیل میں مرنے والوں کی تعداد 1139 بتائی گئی ہے جب کہ تقریباً 250 دیگر کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔ دریں اثنا سرکاری اعداد و شمار پر مبنی اعداد و شمار کے مطابق 7 اکتوبر سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں 38,000 سے زیادہ فلسطینی مارے جاچکے ہیں۔
جبکہ ہاریٹز کے مطابق یہ معلوم نہیں ہے کہ ہنیبل فوجی طریقہ کار کی وجہ سے کتنے فوجی اور عام شہری متاثر ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ مجموعی اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ اغوا کیے گئے بہت سے لوگ (ہینیبل ڈائریکٹو کے باعث) اسرائیلی گولیوں کی زد میں تھے خواہ وہ اصل ہدف (اغوا کیے جانے والے فوجی) نہیں بھی تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہنیبل پروٹوکول حماس کی طرف سے دراندازی کی گئی 3 فوجی تنصیبات پر لاگو تھا جبکہ وہ پروٹوکول 7 فوجیوں کا اغوا اور 38 فوجیوں و 15 دیگر کے قتل کو روکنے سے قاصر رہا۔
ہنیبل ڈائریکٹو کیا ہے؟
ہنیبل ڈائریکٹیو جسے ہنیبل پروسیجر یا ہنیبل پروٹوکول بھی کہا جاتا ہے ایک اسرائیلی فوجی پالیسی ہے جو کسی فوجی کے اغوا ہونے کی صورت میں زیادہ سے زیادہ طاقت کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔
اسرائیلی فوج کے ایک سابق فوجی یہودا شاول نے گزشتہ برس الجزیرہ کو بتایا تھا کہ اغوا کو روکنے کے لیے آپ بغیر کسی رکاوٹ کے فائر کھولتے ہیں خواہ اس میں اغوا کیے جانے والے فوجی کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔
یہ بھی پڑھیے: غزہ کے شہر خان یونس پر اسرائیلی بمباری کے بعد شہریوں کا انخلا
یہودا نے مزید کہا کہ اغوا کاروں پر گولی چلانے کے علاوہ فوجی ان جنکشنوں، سڑکوں، شاہراہوں اور دیگر راستوں پر بھی فائرنگ کرسکتے ہیں جہاں سے اغوا کرنے والے کسی مغوی فوجی کو لے جا سکتے ہوں۔
لیک ہونے والی فوجی آڈیو ریکارڈنگ کے مطابق اسرائیل نے آخری بار سنہ 2014 میں غزہ پر اپنی جنگ کے دوران ہینیبل ڈائریکٹیو پر عمل کیا تھا حالانکہ اسرائیلی فوج نے اس پروٹوکول کو استعمال کرنے سے انکار کردیا تھا۔
اس کے بعد ہونے والی اسرائیلی بمباری میں درجنوں فلسطینی مارے گئے جس سے اسرائیلی فوج کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات لگے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اس ہدایت کو سنہ 2016 میں منسوخ کر دیا گیا تھا حالانکہ یہ واضح نہیں ہے کہ اس کی منسوخی کی وجہ کیا ہے۔ ہاریٹز نے لکھا کہ اسرائیل کے اسٹیٹ کمپٹرولر کی ایک رپورٹ میں فوج کو اس ہدایت کو ختم کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے جس کی وجہ اس پر ہونے والی تنقید کے ساتھ ساتھ فوج میں شامل افراد کی طرف سے اس کی مختلف تشریحات بھی شامل ہیں۔
مزید پڑھیے: اسرائیلی حملے میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے 10 رشتہ دار شہید
ہاریٹز کی تحقیقات کے مطابق اسرائیلی فوج کے ایک سینیئر ذریعے نے بھی تصدیق کی کہ ہنیبل طریقہ کار 7 اکتوبر کو لاگو تھا۔ ذرائع نے کہا کہ جنگ کے بعد کی تحقیقات سے پتا چلے گا کہ یہ حکم کس نے دیا تھا۔
دریں اثنا اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے اخبار کو بتایا کہ فوج نے 7 اکتوبر اور اس سے پہلے کی مدت کے بارے میں اندرونی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ ان تحقیقات کا مقصد سیکھنا اور اسباق کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہے جو جنگ کو جاری رکھنے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ جب یہ تحقیقات مکمل ہو جائیں گی تو نتائج شفافیت کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔