اشتہارات، ہم اور ہمارا مستقبل

جمعرات 18 جولائی 2024
author image

سجاد بلوچ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

دنیا میں اولین اشتہارکا سراغ قبل از مسیح میں ملتا ہے۔ یہ اشتہار 3ہزار سال قبل مسیح میں تھیبس کے کھنڈرات سے ملا تھا جو بھاگ جانے والے ایک غلام کی تلاش کی غرض سے بنایا گیا تھا۔ اس اشتہار کی ایک علامتی اہمیت بھی ہے۔ عہدِ قدیم کا سرمایہ داربھی اپنے غلام کو تلاش کرنے کے لیے اشتہاربازی کی اہمیت سے آگاہ تھا۔ انسانی تہذیب جوں جوں ترقی یافتہ ہوتی گئی توں توں تکلفات میں اضافہ ہوتا گیا۔ انسان کااپنا پن اور احساس معدوم ہوتا چلاگیا اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ ہم ایک دوسرےکے دکھوں تک میں دکھاوے کی غرض سے شریک ہونے لگے۔ بلکہ انسان خود چلتے پھرتے اشتہار بن گئے۔

خوشی تو چھوڑیے غم تک یہاں دکھاوا ہے

سو دیکھ دیکھ کے یہ اشتہار، تھک گیا میں

)سجاد بلوچ)

اخبارات میں حتمی طور پر اولین اشتہارکا سراغ لگانا کافی مشکل ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ 1704میں بوسٹن نیوز لیٹر میں شائع ہونے والا اشتہاراپنی نوعیت کا پہلااشتہارتھا۔ اس کام کو صحیح معنوں میں عروج انیسویں صدی کے وسط کے بعد ملا جب اخبارات اور رسالوںمیں اس وقت کے سرمایہ داروں نے اشتہارات چھپوانے شروع کیے۔ بیسویں صدی میں نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ اشتہاربازی نے بہت ترقی کی اوریہ خود ایک باقاعدہ شعبہ یا صنعت بن گئی۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن نے اسے نیا عروج بخشا۔ موبائل فون اور پھر سوشل میڈیا کے پھیلاؤ کے بعدیہ صنعت مزید پھیلی اوراب بالکل نئے انداز سےکام کر رہی ہے۔

کسی بھی مشتہر کا بنیادی مقصد اپنی مصنوعات اور خدمات کی تشہیر ہی ہوتا تھا اورہے۔ آغاز میں صحافتی اداروں کی عوام میں قبولیت اور مقبولیت خود مشتہرین کے لیے ایک کشش رکھتی تھی۔ لیکن صحافت، جسےبنیادی طور پر لوگوں تک سچی خبر پہنچانے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، کے رستے میں پہلی بھرپور رکاوٹ بھی پہلا اشتہارہی بنا ہوگا۔ آغاز میں شاید اس کے اثرات اتنے گہرے نہ ہوں لیکن حقیقت یہی ہے کہ جوں جوں سرمایہ داریت دنیا کو اپنے مضبوط پنجوں میں جکڑتی گئی، سچ اورسچائی کی گنجائش کم ہوتی چلی گئی۔

اشتہار بازی کی صنعت نے مزید ترقی کی تو اشتہار کے لیے’ ٹارگٹڈ‘ قارئین کا خیال سامنےآیا۔ پھر یوں ہوا کہ شوبز، کھیل، ادب وغیرہ کے الگ الگ رسائل چھپنا شروع ہوگئے اور اخبارات نے بھی الگ الگ ایڈیشن اور صفحات شائع کرنا شروع کر دیے۔ اب مشتہرین کو یہ سہولت حاصل ہو گئی کہ ان کی مصنوعات یا خدمات کے لیے خاص عمر، دلچسپی کے حامل لوگوں کو مخاطب کرنا آسان ہو گیا۔ ٹی وی کا دور آیا تو خبریں، تفریح، کھیل، مزاح وغیرہ کے پروگرام الگ الگ ہو گئے۔ اس کے بعد بچوں، کھانوں، کھیلوں، جانوروں، تعلیم، نیوزاورمذہب وغیرہ کے الگ الگ چینل بن گئےاور یوں اشتہار مزید ہدف کے مطابق دیے جانے لگے۔ ان مختلف چینلوں اورپروگراموں اورپھرمختلف اوقات کے دوران چلائے جانے والے اشتہارات کے اپنے اپنے معاوضےطے کیے جاتے۔ جس میں پروگراموں کو دیکھنے والوں کی تعداد کی بنیاد پر قیمت لگتی۔

یہ سارا عمل پھر بھی اتنا ’ ہدف پر مبنی یا ٹارگٹڈ‘ نہیں تھا جتنا انٹرنیٹ کے بعد ہو گیا۔ سوشل میڈیا نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ یہ ہر اس انسان کی عمر، علاقہ، روز وشب کی سرگرمیاں اور دلچسپیاں وغیرہ بہت آسانی سے جان سکتا ہے۔ جس کے پاس موبائل فون ہے، اس تک پہنچنا کسی بھی اشتہار دینے والے کے لیے کوئی مشکل نہیں رہا۔

یہ بات بالکل درست معلوم ہوتی ہے کہ اب انفارمیشن اور ڈیٹا کی جنگ ہے۔ اب مشتہرین کوان کے ہدف کے بارے میں بتایا جاتا ہے بلکہ بات ممکنہ ہدف تک پہنچ گئی ہے اور اس طرح کچھ لوگوں کوکچھ خاص مصنوعات کی عادت ڈالی جاتی ہے۔ ہم انسان ایک طرح سے مشینیں ہیں اور ہماری پسند ناپسند، شب و روز کی مصروفیات اور دلچسپیاں سب کہیں محفوظ ہو رہی ہیں اور ان کا تجزیہ کیا جا رہا ہے۔

مثال کے طور پراگر ہم پالتوجانوروں میں دلچسپی رکھتے ہیں توپالتوجانور یا جانوروں سے متعلق مصنوعات بیچنے والے کوہماری سب معلومات ہمارے علم میں لائے بغیر فراہم کر دی جاتی ہیں اورانھیں کہا جاتا ہے کہ یہ لیجے آپ کاشکار آپ کے سامنے رکھ دیا ہے۔ اب آپ کے اشتہار میں طاقت اور کشش ہے تو اسے دبوچ لیجیے۔ آپ نے تجربہ کیا ہوگا کہ اگر آپ غلطی سے بھی انٹرنیٹ پر کچھ سرچ کر لیں توان مصنوعات کے اشتہاردھڑا دھڑملنا شروع ہوجاتے ہیں۔ بلکہ اب تولگتا ہے انٹرنیٹ ہماری سوچوں کو بھی پڑھ رہا ہے۔

گویا ہم موبائل فون کی چھوٹی سی سکرین پر کئی گھنٹے ضائع کر کے سوشل میڈیا کمپنیوں کے مالکان کے پاس محفوظ رکھوانے کے لیے اپناایک خاکہ تیار کروا رہے ہوتے ہیں جسے وہ بوقت ضرورت کام میں لا سکیں اور انھیں بتاتے ہیں کہ لیجیے یہ ہم ہیں، اب آپ بتائیے ہمیں کیا کھانا ہے، کیا پہننا ہے، سیر کے لیے کہاں جاناہے وغیرہ۔ ہم یہ کر کے مشتہرین کے لیے مزید آسانیاں پیدا کر رہے ہیں۔ لیکن کیااس کاکوئی حل ہے؟ خوفناک بات یہ ہے کہ اس کا کوئی حل نہیں۔ اگرہمیں فون استعمال کرنا ہے تو یہ سلسلہ رکے گا نہیں اور فون ہماری ضرورت بنا دیا گیا ہے۔ ڈرتو مستقبل سے لگتا ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی ترقی کے ساتھ مستقبل میں یہ عمل کتنا طاقت ورہوجائے گا ؟ مجھے لگتا ہے یہ ٹیکنالوجی جواپنے آغاز میں ہی انسان کاکردار محدود ترکرتی دکھائی دے رہی ہے، آگے چل کرہمارے دماغوں کو مکمل طور پراپنے قابومیں کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سجاد بلوچ شاعر، ادیب، صحافی اور ترجمہ نگار ہیں۔ ان کی مطبوعات میں ہجرت و ہجر(شعری مجموعہ)، نوبیل انعام یافتگان کے انٹرویوز(تراجم)، جینے کے لیے(یوہوا کے ناول کا ترجمہ)، رات کی راہداری میں(شعری مجموعہ) شامل ہیں۔ کچھ مزید تراجم ،شعری مجموعے اور افسانوں کا مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔پاکستان اور بھارت کے اہم ادبی جرائد اور معروف ویب سائٹس پر ان کی شاعری ،مضامین اور تراجم شائع ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp