نیویارکر میگزین نے جے ڈی وینس کو ڈونلڈ ٹرمپ کا اٹیک ڈاگ لکھا اور ڈونلڈ ٹرمپ نے جے ڈی وینس کو اپنا نائب صدر کا امیدوار نامزد کیا ہے۔ اب جے ڈی کو سب سے زیادہ منہ پھٹ، سب سے زیادہ کنزرویٹو اور ٹرمپ کا سب سے زیادہ وفادار قرار دیا جارہا ہے۔
ری پبلکن پارٹی کو آئندہ جو لڑائیاں لڑنی ہیں اس میں جے ڈی وینس سب سے آگے دکھائی دے گا، یعنی ٹرمپ نے چن کر اپنے جیسے کو اپنا نائب بنایا ہے جو آئندہ ان کا جانشین بھی ہوسکتا ہے۔
ٹرمپ ہمیشہ جے ڈی وینس کو جے ڈی کہہ کر بلاتا ہے۔ دونوں کی پہلی ملاقات فروری 2021 کو ہوئی تھی، جو بہت دلچسپ رہی تھی۔ جے ڈی جب ٹرمپ کے دفتر داخل ہوا تو ٹرمپ اپنے سامنے بھاری فائل رکھ کر بیٹھا تھا۔ اس فائل میں ان سب باتوں کا ذکر تھا جو جے ڈی ٹرمپ سے متعلق کہتا آیا تھا۔ جے ڈی نے اپنے ایک دوست کو میسج میں ٹرمپ کو ہٹلر سے تشبیہہ دی تھی۔
صرف ہٹلر نہیں کہا تھا ساتھ ایک سائیکو بھی کہا تھا۔ ٹرمپ نے جے ڈی سے کہا کہ تم تو میرے خلاف بہت بُرا (بکواس) کرتے رہے ہو۔ جے ڈی نے کسی اگر، مگر کے بغیر ٹرمپ سے معذرت کرلی اور کہا کہ میں میڈیا کی پھیلائی ہوئی جھوٹی باتوں میں آگیا تھا۔
ٹرمپ اتنی کچی گولیاں نہیں کھیلا تھا۔ اس نے جے ڈی کو یاد کروایا کہ وہ ایک کتاب ’ہل بیلی ایلیجی‘ (Hillbilly Elegy) بھی لکھ چکا ہے۔ یہ بیسٹ سیلر کتاب رہی ہے۔ جس میں جے ڈی نے یہ بتایا ہے کہ کیسے گلوبلائزیشن نے گورے امریکیوں کے روزگار پر اثر ڈالا ہے، کیسے جنگوں سے وہ متاثر ہوئے ہیں، کس طرح انڈسٹری کی ریلوکیشن سے بیروزگاری میں اضافہ ہوا۔ نیویارک ٹائم نے اس کتاب کے بارے میں لکھا کہ اسے پڑھیں تو سمجھ آتی ہے کہ ٹرمپ کیوں اتنا مقبول ہوا۔
جے ڈی نے کتاب ٹرمپ کے بارے میں نہیں لکھی۔ یہ کتاب جے ڈی کی اپنی یادداشتوں پر مشتمل ہے۔ ایک نشئی ماں، ننھیال کے پاس پرورش، لازمی سروس کی وجہ سے عراق کی جنگ میں شرکت۔ اس کے بعد اوہایو اور ییل لا اسکول جانا اور اپنی قسمت بدلنا۔ جے ڈی 39 کے ہیں۔ بارک اوباما کے بعد سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ ابھرنے والے سیاستدان مانے جاتے ہیں، جنہوں نے اپنی جدوجہد اور پس منظر کو ہی اپنی کامیابی کے لیے ہتھیار بنا لیا۔
پہلی ملاقات میں ٹرمپ نے اسی کتاب کا حوالہ دیا۔ جے ڈی سے پوچھا کہ تم نے تو یہ سب لکھا تھا۔ تم کیسے میرے مخالف ہوگئے اور میڈیا کے جھوٹ میں آگئے۔ جے ڈی تب تک یہ کہا کرتا تھا کہ ٹرمپ صرف باتیں کرتا ہے۔ یہ لوگوں کی کمزوریوں کو ہدف بناکر انہیں دھوکا دے رہا ہے۔
جے ڈی سینیٹر بننے کے لیے ٹرمپ کی حمایت حاصل کرنے گئے تھے۔ ابتدائی تلخی کے بعد دونوں کی بات چیت 2 گھنٹے تک جاری رہی۔ ٹرمپ نے کہا کہ تم مجھ سے رابطے میں رہنا۔ جے ڈی کو نائب صدر کا امیدوار نامزد کرانے کے لیے ایلون مسک اور فاکس نیوز کے ٹکر کارلسن نے بھی سفارش کی۔ فنڈ ریزینگ کی ایک تقریب میں جہاں ٹکٹ 3 لاکھ ڈالر فی کس تھا، حاضرین نے ٹرمپ سے جے ڈی کو نائب صدر بنانے کا کہا۔
ٹرمپ امیگریشن کے سخت خلاف ہے۔ جے ڈی کی مسز اوشا چلوکوری انڈین نژاد ہیں۔ جے ڈی اور اوشا کی ملاقات ییل لا اسکول میں ہوئی تھی۔ دونوں نے 2014 میں کینٹکی کے ایک مندر میں شادی کی۔ اوشا نے ییل یونیورسٹی سے تاریخ اور کیمبرج یونیورسٹی سے فلسفے میں ماسٹر کیا ہے۔
اوشا کی والدہ بائیولوجسٹ ہیں جبکہ والد انجینیئر ہیں۔ جے ڈی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ اوشا نے ہندو ہوتے ہوئے بھی انہیں اپنے مذہب کے قریب کیا اور چرچ سے دوبارہ جوڑا۔
اکانومسٹ کے مطابق ٹرمپ اچھا سیاسی دماغ ہیں مگر ان کا کوئی سیاسی وارث نہیں تھا لیکن جے ڈی وینس کی صورت میں اب وہ وارث بھی سامنے آگیا ہے۔
وہ لوگ جو سوچ رہے تھے کہ ٹرمپ ایک لہر ہے جو گزر ہی جائے گی مگر اب تسلی رکھیں کہ جے ڈی کی عمر 39 سال ہے اور ان کی صورت یہ لہر لمبے عرصے تک چلے گی کیونکہ جے ڈی کے خیالات ٹرمپ جیسے ہی ہیں۔ جے ڈی اس کلاس سے تعلق رکھتا ہے جس کی محرومیوں کی بات کرکے ٹرمپ اقتدار میں آیا۔ یہ کریلہ اور نیم کا وہ کمبینیشن ہے جو مخالفین کے منہ کا ذائقہ مدتوں خراب رکھے گا۔