پروٹین کے حصول کے لیے دنیا بھر میں گوشت کو اہم عنصر کے طور پر جانا جاتا ہے، تاہم گوشت کی بڑھتی طلب کے پیش نظر دنیا کے کئی ممالک میں جانوروں کا خون بہائے بغیر لیبارٹریز میں جینیاتی گوشت کی تیاری کا کامیاب تجربہ کیا جا چکا ہے۔
حقیقی اجزا پر مشتمل لیبارٹری پروان چڑھنے والے اس گوشت کو ’کلچرڈ میٹ‘ یا ’سیل پر مشتمل گوشت‘ بھی کہا جاتا ہے۔
اس حوالے سے ایک تازہ بلکہ غیر معمولی پیش رفت آسٹریلیا میں دیکھنے میں آئی ہے، جہاں جینیاتی گوشت بنانے والی ایک کمپنی دنیا سے معدوم ہوجانے والی ہاتھیوں کی نسل ’میمتھ‘ کے حقیقی ڈی این اے کو بروئے کار لاتے ہوئے ’میٹ بال‘ بنانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔
اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ ’میمتھ‘ کا تیار کیا جانے والا یہ گوشت ابھی تک خود اس کے تخلیق کاروں نے بھی نہیں چکھا ہے اور نہ ابھی ان اس گوشت کو تجارتی بنیادوں پر متعارف کروانے کا کوئی ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ اس وقت دنیا بھر میں 100 سے زیادہ کمپنیاں کاشت شدہ گوشت کی تیاری پر کام کر رہی ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر اس ٹیکنالوجی کو بڑے پیمانے پر اپنایا جائے تو یہ مستقبل میں گوشت کی عالمی پیداوار کے ماحولیاتی اثرات کو کافی حد تک کم کر سکتی ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں اربوں ایکڑ اراضی زراعت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
یہاں یہ بات بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ دنیا بھر میں اس وقت فقط سنگاپور ہی وہ واحد ملک جہاں اس گوشت کے خوردنی استعمال کی اجازت دی گئی ہے۔ سنگاپور میں ابتدائی طور پر جاپانی لیبارٹریز میں تیار ہونے والا بیٹر کا گوشت فروخت کیے جانے کی توقع ہے۔
اس تازہ پیش رفت پر گڈ فوڈ انسٹی ٹیوٹ کے سائنس اور ٹیکنالوجی مینیجر سیرن کیل کا کہنا ہے کہ ’وہ امید کرتے ہیں کہ اس منصوبے سے ’کاشت شدہ گوشت کی زیادہ پائیدار خوراک پیدا کرنے کی غیر معمولی صلاحیت کے بارے میں نئی بات چیت کا آغاز ہو گا‘۔
سیرن کیل کے مطابق ’ گائے کا گوشت، سور کا گوشت، چکن اور سمندری غذا کاشت کرکے ہم آب و ہوا کی بہتری کے اہداف کو پورا کرتے ہوئے گوشت کی بڑھتی ہوئی عالمی مانگ کو پورا کرنے کے حوالے سے سب سے زیادہ اثر ڈال سکتے ہیں‘۔