آج کے دن یکم اگست 2005 کو سعودی عرب کے پانچویں بادشاہ شاہ فہد بن عبدالعزیز آل سعود راہی ملک عدم ہوئے، سعودی تاریخ میں وہ پہلے بادشاہ تھے جنہوں نے خادمِ حرمین شریفین کا لقب اختیار کیا، وہ 16 مارچ 1921 کو ریاض میں پیدا ہونیوالے شاہ فہد جدید سعودی کی تاریخ کی نمایاں شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔
شاہ فہد نے شرعی علوم اور عربی زبان میں اپنی ابتدائی تعلیم ریاض میں واقع مدرسة الأمراء سے حاصل کی، بعد ازاں انہوں نے بیرون ملک مزید تعلیم حاصل کی، جہاں انہوں نے غیر ملکی زبانیں سیکھیں اور سیاست اور معیشت میں اپنے علم کا دائرہ وسیع کیا۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب میں شاہی فرامین کے مطابق تبادلے اور تقرریاں
شاہ فہد نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 1953 میں بطور وزیر معارف کیا، انہوں نے سعودی عرب کے تعلیمی نظام کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا، جس میں اعلیٰ تعلیم کی توسیع اور جامعات کا قیام شامل ہے۔ 1962 میں انہیں وزیر داخلہ مقرر کیا گیا، اس حیثیت میں انہوں نے ملک کے سیکیورٹی انفرا اسٹرکچر کی بہتری پر کام کیا۔
1975 میں شاہ فہد کو ولی عہد اور نائب وزیراعظم مقرر کیا گیا، اس دور میں، انہوں نے ملکی اور بین الاقوامی سیاست کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔
شاہ فہد نے 13 جون 1982 کو شاہ خالد کی وفات کے بعد تخت سنبھالا۔ ان کے دور حکومت میں، سعودی عرب میں کئی سیاسی اور اقتصادی تبدیلیاں لائی گئیں۔ ان کی اہم کامیابیوں میں دوسرے 5 سالہ ترقیاتی منصوبہ کا آغاز شامل ہے، جس کا مقصد معیشت کو متنوع بنانا اور تیل پر انحصار کم کرنا تھا۔
شاہ فہد کی قیادت میں ملک میں انفرا اسٹرکچر کی ترقی میں نمایاں اضافہ ہوا، جس میں سڑکیں، ہوائی اڈے اور بندرگاہیں شامل ہیں۔ ان کے دورِ حکومت میں صحت اور تعلیمی خدمات میں بھی نمایاں بہتری آئی، جس میں تمام شہریوں کے لیے مفت تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال پر خصوصی توجہ دی گئی۔
مزید پڑھیں: خانۂ کعبہ پر نصب میزاب کی تاریخ کیا ہے؟
علاوہ ازیں، شاہ فہد نے سعودی عرب کے بین الاقوامی تعلقات کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا، انہوں نے خاص طور پر مغربی اور عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیا۔
شاہ فہد نے 1986 میں ’خادم الحرمین الشریفین‘ کا لقب اختیار کیا، جو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں مقدس مقامات کی خدمت کے عزم کا عکاس ہے۔ ان کے دور میں، حرمین شریفین کی توسیع کے کئی منصوبے عمل میں لائے گئے، جن سے حج اور عمرہ کرنے والوں کے لیے آسانیاں پیدا ہوئیں۔
شاہ فہد بن عبد العزیز نے ولی عہد، نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے طور پر خدمات انجام دیتے ہوئے، 9 سے 12 دسمبر 1980 کے دوران پاکستان کا دورہ کیا، ان کا یہ دورہ دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے اور مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کے مقصد سے کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: ریاض کے ٹاور پر بانی مملکت کا سب سے بڑا ’دیواری پورٹریٹ‘
اس دورے کے دوران، انہوں نے مختلف حکومتی عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں اور کئی اہم معاہدوں پر دستخط کیے، جو دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے میں مددگار ثابت ہوئے۔
اس دورے کے دوران، سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان اقتصادی، ثقافتی اور فوجی تعاون پر زور دیا گیا، شاہ فہد کے دورے نے دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب پاکستان کے ساتھ دیرپا تعلقات کا خواہاں ہے ، وفاقی وزیر اطلاعات
انہوں نے اس دورے کے دوران یہ تاریخی بات بھی کہی کہ ’پاکستان کے معاملات میں کسی بھی قسم کی مداخلت کو سعودی عرب کے معاملات میں مداخلت اور اس کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے مترادف سمجھا جائے گا۔‘
اسی طرح انہوں نے پاک سعودی تعلقات کو مثالی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان سرکاری اور عوامی سطح پر اور مختلف شعبوں میں تعلقات ہمیشہ سے ہی ایک شاندار اور زندہ مثال رہے ہیں کہ اسلامی ممالک کے درمیان تعلقات کیسے ہونے چاہییں۔‘
مزید پڑھیں: پاکستان اور سعودی عرب کا میڈیا شراکت داری بڑھانے کا فیصلہ
جس طرح پاکستان میں سعودی عرب کے حوالے سے بہت کچھ منسوب ہے؛ جیسا کہ فیصل مسجد اور فیصل آباد، اسی طرح شاہ فہد کے نام سے آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں شاہ فہد کے نام ایک جامع مسجد موسوم ہے، جو سعودی عرب کا پاکستان کے لیے تحفہ تھا۔
شاہ فہد نے یکم اگست 2005 کو طویل علالت کے بعد وفات پائی، وہ سعودی عرب کی تاریخ میں ایک مرکزی شخصیت ہیں، جنہوں نے اپنی کوششوں اور مسلسل اصلاحات کے ذریعے ہر شعبے میں نمایاں نقوش چھوڑے ہیں۔