پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کے بعد بہت سی چہ مگوئیاں شروع ہو گئی ہیں۔ سابق وزیراعظم کی ہمشیرہ علیمہ خان نے میڈیا کو بتایا کہ عمران خان نے جیل سے پیغام بھیجا ہے کہ آرمی چیف نیوٹرل ہوجائیں۔ مذاکرات کی اس آفر پر سب حیران ہوئے کہ عمران خان تو کہتے رہے ہیں کہ نیوٹرل تو صرف جانور ہوتا ہے۔ اب وہی عمران خان کس منہ سے انہیں نیوٹرل ہونے کا کہہ رہے ہیں۔ کبھی وہ کہتے رہے کہ ان کی لڑائی صرف آرمی چیف سے ہے۔ اورجیل میں رہتے ہوئے ہی انہوں نے سپہ سالار کو بھی خبردار کیاکہ اگر ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو کچھ ہوا تو وہ انہیں نہیں چھوڑیں گے اور قبر تک ان کا پیچھا کریں گے۔ پھر الزام عائد کیا کہ ان کی جماعت کے خلاف جو کچھ ہورہا ہے وہ فوج کے سربراہ کے احکامات پر ہورہا ہے۔ عمران خان کی گزشتہ 10 سال کی سیاست پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ پاکستان میں ان سے زیادہ تضادات شاید ہی کسی سیاستدان کی عملی سیاست میں دیکھے گئے ہوں۔
سیاستدانوں کے نزدیک یوٹرن لینا کوئی بری بات نہیں۔ مگر بیشتر پاکستانی سیاستدانوں کی کوئی آئیڈیالوجی نہیں ہے اور انہیں لوٹا بننے میں زرا دیر نہیں لگتی اور نہ ہی کسی قسم کی شرمندگی ہوتی ہے۔ یہاں بیشتر سیاستدان کبھی ایک پارٹی میں رہ کر اس کے ایجنڈے پر زبردست تقریریں کرتے ہیں، اپنے مخالفین اور ان کی پالیسیوں کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔ اور پھر اپنی ہی پارٹی کو چھوڑ کو مخالف پارٹی میں شمولیت اختیار کرکے سابقہ جماعت کے رہنماؤں کی برائیاں شروع کردیتے ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاستدان عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ تاہم تضادات اور یوٹرن لینے میں عمران خان کا کوئی ثانی نہیں۔
عمران خان نے اگلے ہی روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر ایک اور بیان جاری کیا اور اعلان کیاکہ فارم 47 کی کٹھ پتلی مافیا سے کوئی بات چیت ہو گی نہ مذاکرات۔ ملک میں غیر اعلانیہ مارشل لا نافذ ہے۔
اپنے اسی بیان میں کہتے ہیں کہ کٹھ پتلی حکومت کے بجائے اصلی فیصلہ ساز فوجی قیادت کے ساتھ مذاکرات کو ترجیح دیں گے اور اس سلسلے میں انہوں نے محمود خان اچکزئی کو مذاکرات کا مینڈیٹ دیا ہے۔ فوجی قیادت اپنا نمائندہ محسن نقوی کے علاوہ مقرر کرے تو ہم مشروط مذاکرات کریں گے۔ انہوں نے اپنے مطالبات بھی سامنے رکھ دیے۔ جن میں پہلا مطالبہ یہ ہے کہ ہمارا چوری کیا گیا مینڈیٹ واپس کیا جائے۔ دوسرا مطالبہ اسیران کی رہائی اور جھوٹے مقدمات کا خاتمہ ہے، جبکہ تیسرا مطالبہ صاف اور شفاف الیکشن کا انعقاد ہے جس کے بغیر ان کے مطابق ملک کی سالمیت خطرے میں ہے۔
اگر مینڈیٹ واپس لینا ہے تو نئے الیکشن کس لیے؟ ایک طرف وہ الزام لگاتے ہیں کہ ملک میں غیر اعلانیہ مارشل لا نافذ ہے اور دوسری طرف اسی مارشل لا کی قوتوں سے مذاکرات بھی چاہتے ہیں۔ محمود خان اچکزئی کو اپنا نمائندہ بھی مقرر کردیا ہے جو اطلاعات کے مطابق آئندہ ہفتے آصف زرداری اور نواز شریف سے ملاقاتیں کریں گے۔ انہی دونوں جماعتوں کو وہ فارم 47 کی پیداوار قرار دینے کے علاوہ ہمیشہ سے اپنی ضد پر قائم ہیں کہ ان چوروں ڈاکوؤں سے کوئی بات چیت نہیں ہوسکتی۔
تضادات کے بادشاہ عمران خان کو سمجھنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ ایک طرف وہ فوج کے خلاف اپنے تمام پارٹی ارکان کو اس قدر آگے لے جاچکے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نظر نہیں آتی۔ ایک جنگ شروع کرنے کے بعد دوسری طرف وہ چاہتے ہیں کہ ان کے صرف تین مطالبات مان لیے جائیں تو وہ جنگ کا خاتمہ کرنے کو تیار ہیں۔ یعنی اسی سسٹم میں جہاں مقتدرہ اپنا پورا کنٹرول حاصل کرچکی ہے کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ تو پھر جدوجہد کا کیا بنے گا جس کے پیچھے اپنی ساری پارٹی کو لگائے ہوئے ہیں؟
اقتدار جانے کے بعد عمران خان کی جارحانہ سیاست اور فوج کے ساتھ براہِ راست لڑائی کے بعد آج ملک شخصی آزادیاں کھو چکا ہے۔ سوشل میڈیا اور روایتی میڈیا ایک سے بڑھ کر ایک پابندی کا سامنا کررہا ہے۔ اگر عمران خان اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو ان سب سختیوں، قدغنوں، معاشی اور سیاسی بحرانوں کے ذمہ دار اپنے آپ کو پائیں گے۔ آج بھی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک کے بعد وہ اگر اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ کو سیاست کرتے اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے اپنا کردار ادا کرتے تو ملک اور ان کی پارٹی کبھی اتنا نقصان نہ اٹھاتی۔