انگلینڈ اور ویلز کے پبلک پروسیکیوشن ڈائریکٹر اسٹیفن پارکنسن نے خبردار کیا ہے کہ فسادات سے متعلق نسلی منافرت پر مبنی آن لائن مواد شیئر کرنا جرم ہو سکتا ہے۔ ’ہمارے پاس ایسے سرشار پولیس افسر ہیں جو اس مواد کو تلاش کرنے کے لیے سوشل میڈیا کو چھان رہے ہیں، اور پھر شناخت گرفتاریوں کے ساتھ فالو اپ کر رہے ہیں۔‘
اسٹیفن پارکنسن کے مطابق نسلی منافرت پر مبنی اس نوعیت کی آن لائن شیئرنگ ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے جسے شاید لوگ کوئی اتنا ضرررساں عمل نہ سمجھتے ہوں مگر اس کے نتائج کا انہیں سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ میں سوشل میڈیا پر نفرت اور تشدد کو ہوا دینے کے الزام میں 3 افراد گرفتار
واضح رہے کہ کچھ روز قبل برطانیہ کے شہروں لیورپول، برسٹل، مانچسٹر، اسٹول آن ٹرینٹ، بلیک پول اور بلفاسٹ سمیت 2 درجن سے زائد شہروں میں نسل پرستوں کے حملوں میں 150 پولیس اہلکار اور درجنوں شہری زخمی ہوگئے ہیں۔
'We do have dedicated police officers who are scouring social media to look for this material, and then follow up with arrests.'
The director of public prosecutions of England and Wales warns that sharing online material of riots could be an offencehttps://t.co/PYaeP7gPAQ pic.twitter.com/kOGWDPrlyz
— Sky News (@SkyNews) August 7, 2024
مقامی میڈيا کے مطابق دائيں بازو کے حامی ساؤتھ پورٹ میں بچوں کے قتل کے بعد سے گزشتہ 5 روز سے جاری واقعات میں مشتعل افراد نے پولیس اسٹیشنز کو آگ لگادی اور متعدد اسٹورز لوٹ لیے تھے۔
برطانیہ میں پولیس نے ملک بھر میں انتہائی دائیں بازو کے تشدد کے تناظر میں پرتشدد اور نفرت انگیز سوشل میڈیا پوسٹ کرنے پر خاتون سمیت 3 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، یہ گرفتاریاں آن لائن پھیلے ہوئے جھوٹے دعوؤں کے باعث فسادات کے بعد ہوئی ہیں کہ ساؤتھ پورٹ میں تین بچوں کو چاقو مارنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا مشتبہ مسلمان سیاسی پناہ کا متلاشی تھا۔
مزید پڑھیں: برطانیہ کے مختلف شہروں میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں، متعدد زخمی و گرفتار
برطانوی حکومت نے ہنگامہ آرائی میں ملوث ملزمان کو سزائیں دینےکے لیے عدالتیں 24 گھنٹے کھلی رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت نے واضح کیا ہےکہ غلط معلومات پھیلائی جا رہی ہیں، واقعہ دہشت گردی ہے اور نہ ہی ملزم مسلمان ہے۔
برطانوی وزيراعظم کیئر اسٹارمر نے کہا ہے کہ کسی بھی قسم کے تشدد کے لیے جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔ آزادی اظہار رائے اور تشدد 2 الگ چیزیں ہیں، سڑکیں محفوظ رکھنے کے لیے ہرممکن کارروائی کی جائے گی۔