بنگلہ دیش میں انقلابی تبدیلی : بین الاقوامی میڈیا نے بھارتی پروپیگنڈے کا پول کھول دیا

جمعہ 9 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بنگلہ دیش میں طلبا تحریک کے نتیجے میں شیخ حسینہ واجد کے ملک سے فرار ہوکر بھارت پہنچنے کے بعد بھارتی میڈیا میں یہ رپورٹیں آنا شروع ہو گئیں کہ بنگلہ دیش میں ہندو اقلیتوں کے ارکان کو ’اسلام پسند قوتوں‘ نے نشانہ بنایا ہے۔ ہندوستانی میڈیا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر گمراہ کن مواد پر مشتمل مضامین اور ویڈیوز بھی سامنے آئیں، تاہم بھارتی ذرائع ابلاغ کے یہ دعوے جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کا بنگلہ دیش کی ’انقلابی حکومت‘ کیساتھ ملکر کام کرنیکا عندیہ

غیرملکی خبررساں ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ٹائمز گروپ کی ملکیت مررناؤ کے یوٹیوب چینل پر ایک ویلاگ کیا گیا، جس کا عنوان تھا ’بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر حملہ؟ اجتماعی قتل، ہجوم کے ذریعے قتل‘، اس ویلاگ میں 4 گھروں پر حملوں اور جلاؤ گھیراؤ کی فوٹیجز دکھائی گئیں۔

فیکٹ چیکنگ کے بعد ان مین سے  2 گھروں کی شناخت مسلمانوں کی ملکیت کے طور پرہوئی، الجزیرہ کے مطابق اس ویڈیو کا عنوان گمراہ کن ہے، کیونکہ اس واقعے میں اجتماعی قتل کی کوئی اطلاع نہیں، مقامی رپورٹس کے مطابق جلائے گئے گھروں میں سے ایک بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس نے بنگلہ دیش کی نگراں حکومت کا چارج سنبھال لیا

ویلاگ میں ہجوم کے ہاتھوں 24 اقلیتی افراد کو زندہ جلانے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے، الجزیرہ کی فیکٹ چیکنگ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ حسینہ واجد کی برطرفی کے بعد سے اب تک بنگلہ دیش میں صرف 2 ہندو ہلاک ہوئے ہیں، جن میں سے ایک پولیس افسر اور ایک عوامی لیگ کا رکن تھا۔

بھارتی میڈیا میں بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر حملوں کی بہت سی خبروں میں عجیب و غریب دعوے کیے گئے ہیں، جیسا کہ ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بنگلہ دیش سے’ایک کروڑ سے زیادہ پناہ گزینوں کے جلد ہی مغربی بنگال میں داخل ہونے کا امکان ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں: ’طلبا نے بنگلہ دیش بچا لیا‘، وطن واپسی پر ڈاکٹر یونس کی پہلی پریس کانفرنس

اس رپورٹ میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے قریبی ساتھی سویندو ادھیکاری کا حوالہ دیا گیا تھا، جو مودی حکومت میں وزیر ہیں۔

بھارتی کی اے این آئی نیوز ایجنسی نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ بنگلہ دیش میں منظم بغاوت بنگلہ دیش کے دشمنوں کی جانب سے کی گئی، ٹائمز آف انڈیا نے مضمون شائع کیا کہ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی نے حسینہ واجد کی حکومت گرائی، جس پر سیاسی تجزیہ کار زاہد الرحمان نے کہا کہ ہندوستانی میڈیا نے ’اسلامو فوبک‘ لینس کے ذریعے خبر دی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش میں تمام بھارتی ویزا سینٹرز بند، وجہ کیا بنی؟

زاہد الرحمان کے مطابق طلبا تحریک جس نے عوامی بغاوت کو ہوا دی، میں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے، لیکن ہندوستانی میڈیا کسی نہ کسی طرح اپنی اسلامو فوبک نظروں سے پورے منظر نامے کی ترجمانی کررہا ہے۔

آئی ایس آئی اور چین پر الزام

بھارتی میڈیا نے یہ دعوی بھی کیا ہے کہ بنگلہ دیش احتجاج میں پاکستانی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کا ہاتھ تھا، کیونکہ وہ سیاسی حمایت سے بنگلہ دیش کو ایک اسلامی ریاست میں تبدیل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ جیسا کہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور اس کی سابق سیاسی اتحادی جماعت اسلامی وغیرہ۔ کچھ ذرائع ابلاغ نے اس احتجاج کو چین سے بھی جوڑا۔

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم خالدہ ضیا 6 سال بعد منظر عام پر، پہلے خطاب میں کیا کہا؟

دی اکنامک ٹائمز کے ایڈیٹر دیپنجن آر چودھری نے ایکس پر لکھا کہ جماعت اسلامی نہ تو ملک کے لیے اچھی ہے اور نہ ہی ہندوستان کے لیے، سرحد پار دہشت گردی کو فروغ دینے کا جماعت کا ٹریک ریکارڈ حالیہ تاریخ کا حصہ ہے۔

X پر 10 لاکھ فالوورز کے ساتھ ٹیلی ویژن چینل TV9 گجراتی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر سوال کیا کہ بنگلہ دیش میں بغاوت کے پیچھے ISI ہے؟ کیا پرتشدد حملوں کے پیچھے جماعت اسلامی کا ہاتھ ہے؟

زمینی حقائق کیا ہیں؟

بھارتی دعوے اپنی جگہ تاہم حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں طلبا تحریک کے دوران ہندوؤں پر حملے نہیں کیے گئے، جن 2 ہندو رہنماؤں کے گھروں پر حملہ کیا گیا، ان کا تعلق عوامی لیگ سے تھا۔

زاہدالرحمان کے مطابق حسینہ واجد کے بیٹے، سجیب واجد جوئے، جو امریکا میں مقیم ہیں، نے ہندوستانی میڈیا کو کئی انٹرویوز دیے، جس میں ہندوؤں پر حملوں اور آئی ایس آئی کی مبینہ کارروائیوں کے بارے میں افواہیں اور غیر تصدیق شدہ دعوے پھیلائے گئے۔

‘حملے فرقہ وارانہ نہیں، سیاسی طور پر کیے گئے’

بنگلہ دیش میں ہندو برادری کے رہنما گوبندرا چندر پرمانک نے کہا ہے کہ ان کے علم کے مطابق عوامی لیگ سے تعلق کے بغیر کسی ہندو گھرانے پر حملہ نہیں کیا گیا۔

’میں اس بات کی تصدیق کر سکتا ہوں کہ  حملوں کا محرک سیاسی تھا، فرقہ وارانہ نہیں تھا، ملک بھر میں عوامی لیگ سے وابستہ مسلم گھرانوں پر ہندوؤں کی نسبت 10 گنا زیادہ حملے کیے گئے۔‘

’مسلمان ہندوؤں کی حفاظت کرتے ہیں‘

بنگلہ دیش میں احتجاج کے دوران ہندوؤں کی سب سے بڑی آبادی والے ضلع برہمن باریا کے مسلمان باشندوں اور طلبا نے ہندو گھرانوں کی حفاظت کی۔

برہمن باریا کے ملبوسات کے ایک کاروباری منشی عزیزالحق نے الجزیرہ کو بتایا کہ وہ علاقے میں کسی بھی فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے کے لیے کام کررہے ہیں۔ ’ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح ہندوستانی میڈیا سوشل میڈیا پر بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر حملوں کی تصویر کشی کررہا ہے۔ حقیقت بالکل مختلف ہے، ہندو مندروں کی حفاظت کی جا رہی ہے۔‘

دی وائر کے بانی ایڈیٹر سدھارتھ وردراجن کے مطابق ہندوستانی میڈیا کا ایک حصہ ہے جو بنگلہ دیش کی صورتحال کو مسلم مخالف بیان بازی کو فروغ دینے کے لیے استعمال کررہا ہے، بھارتی میڈیا یہ سب بی جے پی اور آر ایس ایس کے ایجنڈے کی خدمت کے لیے کررہا ہے۔

‘دہلی کا ڈھاکہ کو غیر مستحکم کرنے کا ارادہ’

سیاسی تجزیہ کار فرید ارکیزیہ بخت کے مطابق بھارتی میڈیا کی طرف سے پھیلائی گئی غلط معلومات نئی دہلی کے ڈھاکہ کو غیر مستحکم کرنے کے ارادے کی عکاسی کرتی ہیں۔’ ہندوستان برصغیر میں اپنا سب سے قیمتی اتحادی کھو چکا ہے اور آنے والی انتظامیہ کی سمت کے بارے میں گہری تشویش میں مبتلا ہے۔‘

’بنگلہ دیش میں ہونے والا تشدد پولیس فورس کے خاتمے کا نتیجہ‘

امریکہ میں مقیم بنگلہ دیشی سیاسی مبصر شفقت ربی انیک نے کہا کہ بنگلہ دیش میں ہونے والے احتجاج کا نتیجہ پولیس فورس کے تشدد کا خاتمہ ہے، جس کی بڑی وجہ گزشتہ 15 سالوں میں ان کی طرف سے کی جانے والی زیادتیوں کے خلاف عوامی انتقام ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp