حکومت نے رواں مالی سال کے بجٹ میں عوام پر ٹیکسز کا بوجھ بڑھا دیا ہے جس سے لوگوں کی معاشی مشکلات میں بے حد اضافہ ہوگیا ہے۔ کاروباری، ملازمت پیشہ اور ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد ٹیکسز کے باعث پریشان نظر آرہے ہیں۔ دوسری جانب ماضی میں کیے گئے انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ معاہدے بجلی کے زیادہ بلوں کا باعث بن رہے ہیں جس کے باعث ہر خاص و عام بہت پریشان ہے اور معیشت کا چلنا مشکل نظر آرہا ہے۔
حکومت نے پہلے تو بجلی کے زیادہ بلوں پر عوامی احتجاج کے باعث آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر نظر ثانی کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی اور اب سابق نگراں وزیر توانائی محمد علی کو وزیراعظم کا معاون خصوصی مقرر کردیا گیا ہے، اس کے علاوہ سیکریٹری توانائی راشد لنگڑیال کا تبادلہ کرکے انہیں چیئرمین ایف بی آر کی ذمہ داریاں تفویض کی گئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں عوام کو آئی پی پیز کے حوالے سے ہر ممکن ریلیف دیا جائیگا، اویس لغاری
کہا یہ جارہا ہے کہ حکومت آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کرکے بجلی کے بلوں میں عوام کو ریلیف دے گی جبکہ نئے چیئرمین ایف بی آر کی تعیناتی سے کچھ ایسی اصلاحات کی جائیں گی کہ عام آدمی پر ٹیکس کے بوجھ میں کچھ کمی کی جا سکے۔
وی نیوز نے مختلف تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں اور آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے بعد کیا ایسا ممکن ہے کہ حکومت عوام کو بجلی کے بلوں اور ٹیکسز میں کچھ ریلیف دے سکے؟
حکومت بجلی کے بلوں میں ابھی کوئی بڑا ریلیف دینے کی پوزیشن میں نہیں، سہیل وڑائچ
سینیئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ مجھے یہ لگتا ہے کہ حکومت بجلی کے بلوں میں ابھی کوئی بڑا ریلیف نہیں دے سکے گی کیونکہ جب تک آئی پی پیز کا مسئلہ حل نہیں ہوتا یا اس بارے میں کوئی پالیسی کا ریویو نہیں ہوتا تو یہ ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے کہاکہ یہ وقت پاکستان کے لیے مشکل ہے، سب کو پتا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ سخت شرائط پر معاہدہ کیا گیا ہے، ایسے معاملات میں جب تک آمدن میں اضافے کے لیے کوئی بڑے اقدامات نہیں ہوتے اس وقت تک کاروباری اور ملازمت پیشہ افراد کے لیے ریلیف ممکن نہیں ہے۔
سہیل وڑائچ نے کہاکہ تاجر دوست اسکیم میں اس وقت تک 50 سے 60 ہزار کاروباری افراد نے رجسٹریشن کرائی ہے جو کہ بہت ناکافی ہے، کم از کم 10 لاکھ نئے کاروباری افراد رجسٹرڈ ہوں گے تو تب جاکر کہیں معیشت کا سہارا ملے گا، دوسری جانب بجلی کے زیادہ بلوں کے باعث انڈسٹری نہیں چل رہی اور آئے روز صنعتیں بند ہورہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں حکومت کا عوام کو سستی بجلی فراہم کرنے سے متعلق نئے فارمولے پر غور
انہوں نے کہاکہ اس وقت ملک میں جو سیاسی فضا ہے اس کی وجہ سے بھی لوگوں کو ایسے لگتا ہے کہ یہ حکومت نہیں چلے گی۔ ان عوامل کے باعث فی الحال عوام کو ریلیف کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔
نوتعینات چیئرمین ایف بی آر پاور ڈویژن میں زیادہ کامیاب نہیں رہے، شعیب نظامی
معاشی تجزیہ کار شعیب نظامی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ حکومت نے چیئرمین ایف بی آر کو تبدیل تو کردیا ہے اور اس عہدے پر سابق سیکریٹری توانائی راشد لنگڑیال کو تعینات کیا گیا ہے جو کہ ملک بھر میں توانائی کے بحران کو قابو کرنے میں بھی زیادہ کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ سابق چیئرمین ایف بی آر امجد زبیر وزیراعظم شہباز شریف کے بڑے خاص سمجھے جاتے تھے لیکن گزشتہ کئی ماہ سے وہ حکومت کے زیر عتاب تھے، وزیراعظم نے ایک میٹنگ کے دوران لائیو کوریج میں بھی امجد زبیر ٹوانہ کی کارکردگی پر تنقید کی تھی، تنقید اپنی جگہ لیکن فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ان کی سربراہی میں ٹیکس اہداف حاصل کیے تھے۔
شعیب نظامی کے مطابق ایف بی آر کے نئے چیئرمین کی تقرری سے ادارے میں ڈیجیٹلائزیشن کا عمل تیز ہوگا اور رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ٹیکس اہداف حاصل کرنے میں معاونت ہوگی، تاہم اگر موجودہ نئے چیئرمین پہلی سہ ماہی میں ٹیکس اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہو گئے تو آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان پر منی بجٹ لانے کی تلوار لٹکنا شروع ہوجائے گی۔
بجلی کے بلوں میں ریلیف کے لیے ترقیاتی بجٹ سے کٹوتی زیرغور
معاشی تجزیہ کار کے مطابق عوام کو مہنگائی اور خاص طور پر بجلی کے بلوں میں ریلیف دینے سے متعلق مختلف تجاویز کا مسلسل جائزہ لیا جارہا ہے۔ وزارت خزانہ، وزارت توانائی اور وزارت منصوبہ بندی مل کر ریلیف کے لیے اقدامات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ اس بات کا امکان ہے کہ وفاقی حکومت اپنے ترقیاتی بجٹ میں 400 ارب روپے کی کٹوتی کر کے بجلی کے بلوں میں ریلیف اور کیپیسٹی چارجز کے اثرات کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ عوام کو ریلیف دینے کے پلان کی تیاری پر آئی ایم ایف سے بھی مرحلہ وار مشاورت کی جارہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں بجلی کے بل زیادہ کیوں آئے؟ پاور ڈویژن کے حکام سے جواب طلب کرلیا گیا
شعیب نظامی نے کہاکہ اگر حکومت ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کرتی ہے تو اس سے معاشی سرگرمیوں کو دھچکا لگے گا اور معاشی ترقی کی شرح کا ہدف حاصل کرنے میں مشکلات ہوں گی، لیکن اگر حکومت ریلیف کے لیے 400 ارب روپے کی رقم بجٹ سے نکالتی ہے تو بجٹ کا خسارہ بڑھ جائے گا اور آئی ایم ایف کسی صورت اس پر راضی نہیں ہوگا۔ حکومت کو ریلیف دینے کے لیے ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کرنا ہوگی تاکہ ریلیف کی رقم کے اثرات بجٹ پر نہ پڑیں۔