پاکستانی پرچم ڈیزائن کرنے والے امیر الدین قدوائی

بدھ 21 اگست 2024
author image

سفیان خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وائسرے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی آرزو تھی کہ دنیا کے نقشے پر نمودار ہونے والے پاکستان کے پرچم پر برطانوی جھنڈے کو بھی جگہ دی جائے۔ اس سلسلے میں انہوں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو یہ دلیل دی کہ بھارتی رہنما بھی باقی نو آبادیوں کی طرح اپنے پرچم کا 5 واں حصہ برطانوی جھنڈے کے لیے مخصوص کرنے جارہے ہیں۔

ماؤنٹ بیٹن نے جب پاکستان کو بھی یہ پیشکش  کی تو قائد اعظم معاملے کو مسلم لیگ کے دیگر رہنماؤں  کے علم میں لائے۔ ان سبھی رہنماؤں کا یہ خیال تھا کہ بطور پاکستانی قیادت، وائسرے کے اس فیصلے سے اختلاف کرنا چاہیے۔ اب برصغیر کےمسلمان انگریز سرکار سے نجات حاصل کرکے نئی اور آزاد مملکت بنانےجارہے ہیں، ایسے میں برطانوی پرچم کی موجودگی پاکستان کے تشخص اور آزادی کو متاثر کرسکتی ہے۔

چنانچہ وائسرے لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے معذرت کرلی گئی اور پاکستان کا پرچم جلد سے جلد ڈیزائن کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ چونکہ تحریکِ آزادی کے دوران مسلم لیگ کے چاند تارے والے سبزجھنڈے کو عوامی مقبولیت ملی تھی لہذا اسی جھنڈے میں ترمیم کرکے اسے پاکستان کا پرچم قرار دیے جانے پر غور کیا گیا۔ جھنڈے میں موجود سفید رنگ کو اقلیت کی نمائندگی کے طور پر پیش کیا گیا تاہم یہ فیصلہ نہ ہوسکا کہ یہ سفید رنگ جھنڈے میں کہاں رکھا جائے۔

تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے اس مرحلے پر مسلم لیگ کے جھنڈے اور اس میں سفید رنگ کے اضافے سے پرچموں کے 2 ڈیزائن بنائے گئے۔ ایک میں دائیں اور بائیں سفید رنگ اور درمیانی سبز حصہ چاند ستارے سے سجا تھا۔ جبکہ دوسرے جھنڈے میں ستارے 5 تھے اور یہ موجودہ پرچم کی طرح کا تھا۔ 5 ستاروں والا آئیڈیا قائد اعظم کا تھا جس میں ستاروں سے مراد پانچ صوبے یعنی بنگال، پنجاب، بلوچستان، سندھ اور سرحد مراد تھے۔ اس موقع پر سردار عبدالرب نشتر کا کہنا تھا کہ مستقبل میں اگر کئی اور ریاستیں پاکستان سے جڑ گئیں تو پرچم کے ستاروں میں بھی رد و بدل کرنا پڑے گا، اسی لیے بہتر ہوگا کہ ایک ہی ستارہ پاکستانی جھنڈے پر رہے۔ اس ایک ستارے کے حامل پرچم کو منظوری مل گئی۔ اس مرحلے سے سید امیر الدین قدوائی کا کردار شروع ہوتا ہے۔

سید امیر الدین قدوائی تحریک پاکستان کے سرگرم اور پرجوش کارکن تھے۔ 1901 میں جنم ہوا۔ نوجوانی میں ہی برطانوی راج کے خلاف خلافت موومنٹ کے پرجوش کارکن رہے اور پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ وہ کارکن سے چیف لیڈر بن گئے۔ مولانا شوکت علی تو انہیں “میرے لیفٹیننٹ” کے نام سے مخاطب کیا کرتے تھے۔ 1922 میں جب علامہ راغب احسن کی سربراہی میں آل انڈیا مسلم یوتھ لیگ کا قیام عمل میں آیا تو سید امیر الدین قدوائی کو سیکریٹری جنرل نامزد کیا گیا۔

امیر الدین قدوائی کی زندگی میں اس وقت بدلاؤ آیا جب 1928 میں انہوں نے نہرو رپورٹ پڑھی۔ ان کا ماننا تھا کہ اس رپورٹ میں صرف اور صرف ہندوؤں کے مفاد کوعزیز رکھا گیا ہے۔ اس رپورٹ سے انہیں بہت مایوسی ہوئی۔ اس عرصے میں وہ انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی مختلف تحاریک میں نمایاں رہے۔ آخرکار 1936 میں انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔

تاریخی کتابوں کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سید امیر الدین قدوائی نے 1940 میں پیش کی جانے والی قرارداد پاکستان کے ڈرافٹ کی تیاری میں بھی معاونت کی۔ امیر الدین قدوائی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پروفیسر کی خدمات سر انجام دے رہے تھے اور علی گڑھ میں تحریک پاکستان کی شمع کو روشن کیے ہوئے تھے۔

قیام پاکستان کے وقت سید امیر الدین قدوائی کویہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ پاکستانی پرچم کو ڈیزائن کریں۔ امیر الدین قدوائی کو علامہ اقبال کے پرانے ساتھی غلام بھیک نیرنگ اور آل انڈیا یوتھ لیگ کے بانی علامہ راغب احسن کی رہنمائی حاصل رہی۔ انہوں نے انتہائی مختصر عرصے میں پاکستانی پرچم کو ڈیزائن کیا۔ پرچم کی تیاری 2 بھائیوں ماسٹر افضال حسین اور ماسٹر الطاف حسین نے کی۔ یہ دونوں بھائی دہلی میں درزی تھے جن کی مہارت کا پورے ہندوستان میں چرچا تھا۔

قیام پاکستان کے بعد امیر الدین قدوائی کا خاندان لاہور آبسا۔ وہ پنجاب یونیورسٹی کے فیکلٹی ممبر بھی رہے جبکہ بطور بیرسٹر بھی خدمات انجام دیں۔ امیرالدین قدوائی کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ وہ جمیعت علمائے پاکستان کے بانی رکن تھے اور بطور نائب صدر مختلف اجلاسوں میں شرکت کرتے۔

یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ سید امیرالدین قدوائی کے صاحب زادے صحافی بنے۔ مرحوم سید انور قدوائی نے والد امیر الدین قدوائی کے ڈیزائن کردہ پرچم اور اس سے جڑے واقعات پر کتاب “قومی پرچم کی کہانی” بھی لکھی۔

پاکستان کے قومی پرچم کو ڈیزائن کرنے والے دانشور اور تحریک پاکستان کی اس عظیم شخصیت کی 21 اگست 1973 کو لاہور میں وفات ہوئی۔ ان کی تحریک پاکستان میں خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے 1991 میں انہیں بعد از مرگ پاکستان موومنٹ گولڈ میڈل سے بھی نوازا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp