بھارت کی جانب سے بنگلہ دیش میں اقلیتی ہندوؤں اور ان کی عبادت گاہوں پر مبینہ حملوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے جمعے کو بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس سے رابطہ کیا اور ان سے بنگلہ دیش میں رہنے والے ہندوؤں کا تحفظ یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔ تاہم دوسری جانب بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم ڈھکے چھپے نہیں جس کا ادراک پوری دنیا کو ہے۔
بھارتی مسلمانوں پر مظالم اور بھارتی حکومت کے متعصبانہ رویے کے خلاف بھارت کے باہر سے ہی نہیں بلکہ اندر سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں، جبکہ مغربی ممالک اور عالمی ادارے بھارت میں مسلمانوں پر مظالم کا ذمہ دار مودی حکومت کو قرار دے چکے ہیں۔ اس حوالے سے عالمی تنظیموں اور میڈیا کی متعدد رپورٹس موجود ہیں جن میں بھارتی مسلمانوں کو درپیش مشکلات اور خطرات کا ذکر کیا گیا ہے۔
گزشتہ روز ہی 5 عالمی تنظیموں نے یورپی یونین سے کہا ہے کہ وہ بھارت پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں فوری طور پر روکنے کے لیے دباؤ ڈالے۔ ان تنظیموں میں ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، فرنٹ لائن ڈیفنڈرز، تشدد کے خاتمے کی عالمی تنظیم اور کرسچئین سولیڈیریٹی ورلڈ وائیڈ شامل ہیں۔ ان تنظیموں نے کہا ہے کہ بھارت مسلمانوں، مسیحیوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کی پامالی اور اظہار رائے پر پابندی کا فوری طور پر خاتمہ کرے۔
امریکا اپنے قریبی اتحادی کیخلاف رپورٹیں پیش کرنے پر مجبور کیوں؟
رواں برس اپریل میں امریکی محکمہ خارجہ نے بھارت میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر تفصیلی رپورٹ جاری کی تھی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بھارت میں انسانی حقوق کی پامالیاں شرمناک حدتک بڑھ چکی ہیں ، بھارت میں اقلیتوں، صحافیوں اور دیگر اختلاف رائے رکھنے والوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، اس کے علاوہ مودی سرکارکی جانب سے سول سوسائٹی کی تنظیموں، مذہبی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور سیاسی اپوزیشن کے خلاف غلط معلومات پھیلانے کے بھی بے شمار واقعات رونما ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: اقلیتیں، صحافی اور اختلاف رائے رکھنے والے نشانہ بنے، بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر رپورٹ جاری
بھارت میں مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی کے اتنے واقعات ہوچکے ہیں کہ امریکا بھی اپنے قریبی اتحادی بھارت پر تنقید کرنے پر مجبور ہوچکا ہے۔ جون میں امریکا نے مذہبی آزادی سے متعلق اپنی شائع کی گئی رپورٹ میں کہا کہ گزشتہ برس پورے سال کے دوران سینیئر امریکی حکام اپنے بھارتی ہم منصبوں کے ساتھ مذہبی آزادی کے مسائل پر تشویش کا اظہار کرتے رہے۔
انٹونی بلنکن نے کیا کہا؟
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے مذہبی آزادی سے متعلق سالانہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا، ’ہم بھارت میں تبدیلی مذہب کے خلاف قوانین، اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر، ان کے گھروں اور اقلیتی مذہبی برادریوں کی عبادت گاہوں کے مسمار کرنے کے واقعات میں تشویشناک اضافہ دیکھتے رہے ہیں۔‘
امریکی رپورٹ میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے ایسے درجنوں واقعات کا ذکر کیا گیا ہے، جس میں انہیں خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ ان میں سے ایک وہ واقعہ بھی درج ہے، جس میں محکمہ ریلوے سے وابستہ ایک سیکیورٹی اہلکار نے ممبئی کے قریب ٹرین میں 3 بے گناہ مسلم مسافروں کو گولی مار کر قتل کردیا تھا۔ اس معاملے کی اب بھی تحقیقات جاری ہیں۔
اس رپورٹ میں مسلمانوں کے خلاف حملوں کی متعدد مثالیں پیش کی گئی ہیں اور کہا گیا ہے کہ مسلمان مردوں پر اس الزام کے تحت بھی جان لیوا حملے کیے گئے کہ وہ گائے کے گوشت کی تجارت کرنے یا ذبح کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
امریکی کمیشن نے اپنی حکومت سے کیا مطالبہ کیا؟
گزشتہ ماہ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے حکومت سے سفارش کی کہ بھارت کو خاص تشویش والے ملکوں کی فہرست میں شامل کرنے کا سفارش کی تھی۔ کمیشن کے سربراہ ربی ابراہم کا کہنا تھا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت میں مذہبی امتیاز خوفناک سطح تک پہنچ گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش میں تمام بھارتی ویزا سینٹرز بند، وجہ کیا بنی؟
انہوں نے کہا کہ مذہبی امتیاز سے متعلق بھارت کا تنزلی کی طرف جانے کا عمل خوفناک ہے۔ کمیشن نے بھارت کی ان سرکاری ایجنسیوں اور عہدیداروں پر اقتصادی اور سفری پابندیاں عائد کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے جو مبینہ طور پر مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔
بنگلہ دیش اور بھارت میں اقلیتیوں کی شرح کیا ہے؟
اعدادوشمار کے مطابق، بنگلہ دیش کی کل آبادی 17 کروڑ 47 لاکھ سے زائد ہے جس میں ہندو آبادی کا تناسب تقریباً ڈیڑھ کروڑ ہے جو کہ کل آبادی کا 7.96 فیصد ہے۔ دوسری جانب، بھارت کی کل آبادی ایک کروڑ 45 لاکھ سے زائد ہے جس میں مسلمانوں کی تعداد 20 کروڑ سے زیادہ ہے اور وہ ملک کی کل آبادی کا 15 فیصد ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش میں انقلابی تبدیلی : بین الاقوامی میڈیا نے بھارتی پروپیگنڈے کا پول کھول دیا
بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کے دور اقتدار کے علاوہ ہر دور میں ہندوؤں پر مظالم ڈھائے گئے جس کے سبب بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی آبادی میں بتدریج کمی ہوتی رہی۔ دوسری جانب امریکی ریسرچ ادارے کی رپورٹ کے مطابق، بھارت کی 15 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے لیکن ملک چھوڑنے والے افراد میں 33 فیصد مسلمان شامل ہیں۔
بھارت کے زیرقبضہ جموں و کشمیر کے علاقوں کی اکثریتی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کی مختلف ریاستوں، اضلاع اور شہر ایسے ہیں جن میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب کافی زیادہ ہے، مثال کے طور پر لکشدویپ میں مسلمانوں کی آبادی 96 فیصد سے زیادہ ہے، اسی طرح آسام میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 34.22 فیصد، مغربی بنگال میں 27 فیصد، کیرالہ میں 26 فیصد اور اترپردیش میں 19 فیصد سے زیادہ ہے۔
یہ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی نسبت بھارت میں ایک مخصوص اقلیت کی تعداد زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود بھارتی حکومت اور میڈیا بنگلہ دیش میں اقلیت (ہندو) پر تشدد اور مظالم کے خلاف پراپیگنڈا کررہے ہیں۔ اس کے برعکس، بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کرچکا ہے کہ بھارت بنگلہ دیش میں ہندوؤں اور ان کے مندروں پر حملوں سے متعلق پراپیگنڈا کررہا ہے، حقیقت میں بنگلہ دیش کے مسلمان ہندو آبادی اور مندروں کی حفاظت یقینی بنارہے ہیں۔
مودی کو اقلیتوں کا خیال کیسے آگیا؟
قبل ازیں، وزیراعظم مودی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ایک جلسے سے خطاب میں بھارتی مسلمانوں کو ’گھس بیٹھیے‘ قرار دیا تھا اور اپوزیشن جماعتوں پر الزام لگایا تھا کہ وہ مسلمانوں کو ’ووٹ جہاد‘ پر اکسا رہی ہے۔ بی جے پی نے رواں برس بھارت میں ہونے والے انتخابات میں مصنوعی ذہانت کی مدد سے ایسی متعدد تصاویر اور ویڈیوز بنائیں جن میں مسلمانوں کو ظالم اور حملہ آور بنا کر پیش کیا گیا۔
جھاڑکھنڈ میں مسلم نوجوان پر تشدد کی ویڈیو ہو یا کالج میں مسلمان طالبہ کو حجاب کی وجہ سے امتحان کی اجازت نہ دینے کا واقعہ، اسکول میں مسلمان بچے پر تشدد کی بات ہو یا مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چڑھانے کے واقعات، بھارتی حکومت اور میڈیا انسانی حقوق کی ان پامالیوں پر خاموشی اختیار کیے رکھتا ہے، لیکن اگر بنگلہ دیش کے طلبا اپنے حقوق کی خاطر بھارت نواز حکومت کا خاتمہ کرتے ہیں تو بھارتی حکومت اور میڈیا اس تبدیلی کو کبھی مذہبی رنگ دینے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی اس کا ذمہ دار آئی ایس آئی کو قرار دیتا ہے۔