کسی بھی کیس میں پولیس اور سرکاری وکیل ہمیشہ ایک پیج پر ہوتے ہیں اور اکثر دیکھا گیا ہے کہ ملزم کے ریمانڈ کا حصول ہو یا کوئی اور معاملہ عدالت میں پیشی سے قبل سرکاری وکیل اور تفتیشی آفیسر آپس میں ملاقات کرتے ہیں تاکہ کیس کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کیا جاسکے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ سرکاری وکیل پولیس کا دفاع بھی کرسکے تا کہ پولیس کے لیے کیس چلانے میں آسانی پیدا ہو۔
کار ساز حادثہ کیس میں آج ملزمہ نتاشا کے ریمانڈ کے معاملے پر پولیس اور پراسیکیوشن میں اختلاف نظر آیا۔
یہ بھی پڑھیں کارساز ٹریفک حادثہ کیس، ’ پتا لگایا جائے خاتون نے کس قسم کا نشہ کر رکھا تھا کہ 2 افراد کی جان لے لی‘
ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر محمد یونس جن کو پولیس کے ساتھ کھڑا ہونا تھا وہ ملزمہ نتاشا کی حمایت میں بولنے لگے۔
’سرکاری وکیل کی تفتیشی آفیسر کی مخالفت‘
تفتیشی آفیسر نے تفتیش اور سی آر او کے لیے عدالت سے ملزمہ کا 7 روزہ جسمانی ریمانڈ مانگا تو ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر محمد یونس نے پولیس ریمانڈ کی مخالفت کی جس پر عدالت نے ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر کی استدعا پر ملزمہ کو جیل بھیجنے کا حکم دے دیا۔
قانون کے مطابق پولیس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ملزم یا ملزمہ کا 14 روز تک جسمانی ریمانڈ لے سکتے ہیں تاکہ مقدمے کی ہر پہلو سے تفتیش کی جا سکے اور ملنے والی معلومات کو عدالت تک پہنچایا جائے۔
’ملزمہ کے جسمانی ریمانڈ کی ضرورت نہیں‘
عدالتی فیصلے کے مطابق ملزمہ کو 19 اگست کو پولیس نے گرفتار کیا تھا، سرکاری وکیل نے بتایا کہ ہم نے ملزمہ سے تفتیش مکمل کرلی ہے، مزید ریمانڈ کی ضرورت نہیں ہے۔
عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ ملزمہ کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیجا جائے لہٰذا ان کی استدعا پر حکمنامہ جاری کیا جاتا ہے، کیس کے تفتیشی آفیسر نے ملزمہ کے 7 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں بختاور بھٹو کارساز واقعے میں ملوث خاتون نتاشا کے خلاف پھٹ پڑیں
واضح رہے کہ ایک روز قبل کراچی میں کارساز روڈ پر خاتون نے گاڑی راہگیروں پر چڑھا دی تھی جس سے باپ بیٹی جاں بحق ہوگئے تھے، جبگہ دیگر افراد زخمی ہوئے۔