جہاں بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات نے ایک بار پھر حکومت کی ناکامی کو بے نقاب کر دیا ہے وہاں ہی ایک اور اہم سوال ذہن کو جنجھوڑ رہا ہے کہ ایسا کرنے والے عناصر کون ہیں؟ یہ تمام منصوبے مقامی گروپس کی کاروائیوں کا شاخسانہ ہیں یا پھر کوئی عالمی عناصر بھی اس ساری مہم کا حصہ ہیں ؟۔
حالیہ دہشت گردی کے نتیجے میں درجنوں معصوم جانوں کا ضیاع اور بے شمار خاندانوں کی تباہی ایک ایسی صورتحال کو ظاہر کرتی ہے جسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تاحال حکومتی اقدامات میں کوئی سنجیدگی نظر نہیں آ رہی اور نہ ہی مستقبل میں عوام کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے بڑے اقدامات کا فیصلہ کیا جا سکا ہے۔
بلوچستان میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر حکومت کی جانب سے صرف بیانات یا پریس ریلیز، لوگوں کے غم و غصے کو کم نہیں کرسکتے۔ ایک طرف دہشت گرد عوام کو نشانہ بنا رہے ہیں، دوسری طرف حکومتی ادارے اور منتخب نمائندے بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح کسی بھی وزیر یا عہدیدار نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، کسی کو معطل نہیں کیا گیا۔ جن کے کمانے والے واحد کفیل چلے گئے ان کا کیا بنے گا، کسی کو معلوم نہیں۔ ویسے تو اب صورتحال اس قدر خراب دکھائی دے رہی ہے کہ کوئی عام شہری بلوچستان کا رخ کرتے ہوئے بھی کترائے گا، لیکن پھر بھی اگر آپ یہاں داخل بھی ہو جائیں تو قدم قدم پر چیک پوسٹس ملتی ہیں۔ اس سب کے باوجود دہشتگردی میں اس قدراضافہ کیسے ہوا ہے، یہ ایک بڑا سوال تاحال موجود ہے۔
یہاں یہ سوال بھی ہے کہ حکومت آخر کہاں ہے؟ کیا یہ انہی لوگوں کے ووٹوں سے اقتدار میں نہیں آئی جو آج اپنے تحفظ کے لیے حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں؟ لیکن اس کے باوجود، حکومت کی کارکردگی صرف زبانی مذمتوں تک محدود رہی ہے۔ ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ یاد رکھیے گا ابھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا ڈرامہ باقی ہے۔ جس میں ذمہ داریوں کی گیند ایک دوسرے کی کورٹ میں پھینک کر جلد ہی دونوں حکومتیں بری الذمہ ہونے کی کوشش کریں گی۔
دیگر ممالک کی مثال دیکھیں تو ہمیں واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات جب بھی ہوئے تو اُدھر انہیں کنٹرول کرنے اور عوام کی حفاظت کے لیے مضبوط حکمت عملی اور فوری اقدامات اٹھائے گئے۔ مثال کے طور پر، نیوزی لینڈ میں 2019 میں کرائسٹ چرچ مسجد حملے کے بعد حکومت نے فوری طور پر اسلحہ قوانین کو سخت کیا اور دہشت گردی کے خطرات کو کم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات اٹھائے۔
اسی طرح، فرانس نے پیرس حملوں کے بعد فوری طور پر ایمرجنسی کا اعلان کیا اور دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کی۔ یہاں تک کہ بھارت نے ممبئی حملوں کے بعد اپنے سیکیورٹی اداروں کو مضبوط کیا اور دہشت گردی کے خلاف مؤثر اقدامات کیے۔
لیکن بدقسمتی سے، وطن عزیز میں پے درپے ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے بعد بھی اول تو کوئی مؤثر حکمت عملی نہیں اپنائی جاتی اور نہ ہی اس پر قومی اتفاق رائے نظر آتا ہے۔ اگر کوئی حکمت عملی بن بھی جائے تو اندرونی اختلافات اور سیاسی عدم استحکام اسے مکمل طور پر کامیاب نہیں ہونے دیتا۔
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں جاری دہشت گردی کے واقعات کے تناظر میں یہ واضح ہے کہ حکومت نہ صرف عوام کی حفاظت میں ناکام ہو چکی ہے بلکہ ان کی کارکردگی نے عالمی سطح پر بھی پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ عوام کا حکومت پر اعتماد دن بدن کم ہوتا جا رہا ہے اور اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو ملک کو مزید سنگین چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر دہشت گردی کے خلاف مؤثر اقدامات اٹھائے، سیکیورٹی اداروں کو مضبوط کرے اور عوام کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ ورنہ کب ہماری داستان مٹ جائے کسی کو معلوم نہیں!