کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد کی گرفتاری اور قریباً 8 گھنٹے بعد رہائی کا معمہ حل ہوگیا۔ پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد نے گرفتاری کو اغوا قرار دیا جبکہ کراچی پولیس نے دعوٰی کیا ہے کہ انہیں ایک مقدمے میں پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا گیا تھا۔
ترجمان کراچی پولیس نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پہ تشہیر کی جا رہی ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد جو جامعہ کراچی کے شعبہ کیمیا میں پڑھاتے ہیں، انہیں تھانہ بہادرآباد بلاجواز لے جایا گیا اور بعد میں چھوڑ دیا گیا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس معاملے کی کچھ پیچیدہ و پوشیدہ وجوہات بھی ہیں۔
ترجمان نے وضاحتی اعلامیے میں کہا ہے کہ اس حوالے سے تھانہ بہادرآباد سے معلومات لی گئیں۔ ایس ایچ او تھانہ بہادر آباد نے واضح کیا ہے کہ یہ ایک روزمرہ کا معاملہ تھا۔ ان کو اطلاع ملی تھی کہ مقدمہ نمبر 35/2017 بجرم 23-1(A) تھانہ آرٹلری میدان ڈسٹرکٹ ساؤتھ کا اشتہاری ریاض احمد ولد شمیم احمد ہے جو بوجہ اشتہار حسبِ ضابطہ و قانون مطلوب ہے اور وہ تھانہ بہادرآباد کے علاقہ میں میسر ہے۔
مزید پڑھیں:جسٹس طارق محمود جہانگیری کو جعلی ڈگری کے الزام کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟
اس لیے قانوناً ریاض احمد کو تھانہ لایا گیا جہاں انہوں نے واضح کیا کہ وہ جامعہ کراچی میں پروفیسر ہیں اور ماضی میں ان کے خلاف مذکورہ مقدمہ درج ہوا تھا جس میں وہ معزز عدالت سے بری ہوئے تھے۔
اس سلسلے میں ان کا ریکارڈ، سی آر او و دیگر ذرائع سے چیک کیا گیا۔ مزید ان کا ریکارڈ عدالتی ویب سائیٹ سے بھی حاصل کیا گیا جس میں ان کے بری ہونے کا تحریر تھا۔ نتیجتاً ان کو حسب ضابطہ چھوڑ دیا گیا۔ اس معاملے کا کوئی پوشیدہ پہلو نہیں ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد نے اپنے اغوا سے متعلق کیا کہا؟
پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد نے ایکس پوسٹ پر لکھا کہ حمایت کے لیے آپ سب کا شکریہ۔ میں اساتذہ، ملازمین، طلبا، سول سوسائٹی، انسانی حقوق کے محافظوں، ٹریڈ یونینوں اور عام محنت کشوں کے عزم سے بہت متاثر ہوں۔
— riaz ahmed (@riazahmedis) August 31, 2024
مجھے دن ڈیڑھ بجے ٹیپو سلطان روڈ سے اغوا کیا گیا تاکہ مجھے سہ پہر 3 بجے وائس چانسلر آفس میں کراچی یونیورسٹی سنڈیکیٹ میں جانے سے روکا جاسکے، جہاں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف غیر منصفانہ ذرائع کمیٹی کی رپورٹ پیش کی گئی تاکہ 17/8/2024 کی یکطرفہ انکوائری سنڈیکیٹ سے منظور کی جا سکے۔
مجھے رات 9 بجے تک ایک پولیس اسٹیشن سے دوسرے پولیس اسٹیشن میں منتقل کیا گیا اور 10 بجے بہادر آباد پولیس اسٹیشن سے بغیر کسی الزام کے رہا کردیا گیا۔ میں نہ تو پی ٹی آئی کا حامی ہوں اور نہ ہی کسی اور بورژوا پارٹی کا اور جسٹس جہانگیری کے بارے میں میرا خیال تھا کہ شنوائی کے بغیر ان کی مذمت نہیں کی جانی چاہیے۔
مزید پڑھیں:جامعہ کراچی نے ایرانی صدر کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری عطا کردی
ایک استاد کی حیثیت سے میں جانتا ہوں کہ یہ ہر طالبعلم کا حق ہے کہ اگر ان پر کوئی الزام لگایا جاتا ہے تو انہیں جواب دینے کا حق دیا جائے۔ یہ سنڈیکیٹ کے منتخب ممبران کی ذمہ داری ہے کہ وہ کمیٹی کے ذریعہ کی جانے والی انکوائری میں شفافیت کا مطالبہ کریں۔
مجھے خوشی ہے کہ ہم نے اپنی بات کہی۔ میں ظلم، استحصال اور نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرتا رہوں گا کیونکہ یہ ہمارا مادر وطن ہے اور اس معاشرے کے لوگ اس کے حقیقی محافظ ہیں۔
واضح رہے کہ 8 گھنٹے کی ’غیر قانونی‘ حراست کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔ ادھر پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد کی گمشدگی پر انجمن اساتذہ جامعہ کراچی نے سوموار کو کلاسز کے بائیکاٹ کا اعلان بھی کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ 8 گھنٹے کی ’غیر قانونی‘ حراست کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔ ادھر پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد کی گمشدگی پر انجمن اساتذہ جامعہ کراچی نے سوموار کو کلاسز کے بائیکاٹ کا اعلان بھی کیا تھا۔