ڈیرہ اسماعیل خان کی ڈھکی کھجور یا نرچھوارا نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونِ ملک بھی مشہور ہے۔ یہ کھجور ڈی آئی خان شہر سے مشرق کی جانب 30 کلو میٹر دور واقع ڈھکی کے علاقے میں پیدا ہوتی ہے۔ یہاں تقریباً 70 سے 80 کے قریب کھجوروں کی اقسام پائی جاتی ہیں جن میں سے ڈھکی کھجور کی مانگ سب سے زیادہ ہے۔
ڈھکی کے رہائشی اور زرعی سائنسدان ڈاکٹر محمد اسلم خان نے وی نیوز کو بتایا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے 8 ہزار ایکڑ رقبے سے زیادہ پر ڈھکی کجھوروں کے باغات لگائے گئے ہیں۔ زمینداروں کے لیے یہ کھجور آسان اور زیادہ آمدن کا بہترین ذریعہ ہے، جس کی وجہ سے سال بہ سال اس کی کاشت کا رقبہ بڑھتا جا رہا ہے۔
ڈھکی کھجور کی خاصیت
ان کا کہنا تھا کہ کھجور کا ایک درخت 30 سے 40 کلو گرام پھل دیتا ہے لیکن جو زمیندار اپنے باغات کا خاص خیال رکھتے ہیں، ان کی فی درخت پیداوار 70 سے 100 کلو گرام تک ہوتی ہے۔
ذائقہ، سائز اور معیار بہت اعلیٰ ہے
ڈاکٹر اسلم کے مطابق ڈھکی کھجور کی 99 فیصد پیداوار سے چھوارے بنتے ہیں، جو خیر پور اور سکھر میں واقع چھوارے کی عالمی منڈی میں اچھی قیمت پر فروخت ہوتے ہیں۔ ڈھکی کے نر چھوارے کی دنیا میں مثال نہیں، کیونکہ اسکا ذائقہ، سائز اور معیار بہت اعلیٰ ہے اور زمینداروں کے لیے دوسری فصلوں سے زیادہ نفع بخش ہے۔ اس کھجور کے 4 سے 5 دانے کھانے سے دن بھر کی غذائیت پوری ہوجاتی ہے۔
کھجور کی نرسری
انہوں نے مزید بتایا کہ کجھور واحد پودا ہے جو لگائے جانے کے فوراً بعد ہی پیداوار شروع کر کے زمیندار کے لیے آمدن کا ذریعہ بنتا ہے۔ اگر کھجور کی نرسری لگا دیں تو ایک پودا 5 سے 6 ہزار تک فروخت ہوتا ہے۔ جبکہ درختوں سے حاصل پھل کے چھوارے بنائے بغیر بھی ڈوکہ اسٹیج پر فروخت کر کے آمدن حاصل کی جا سکتی ہے۔
15 کروڑ 60 ہزار کلوگرام پیداوار
ڈاکٹر اسلم کہتے ہیں کہ پچھلے سال ڈھکی کی کجھور کی پیداوار15 کروڑ 60 ہزار کلوگرام ہوئی تھی اور اس سال پیداوار میں 2 سے 3 لاکھ کلوگرام اضافے کی امید ہے۔
ڈھکی کھجور سے چھوارے کیسے بنتے ہیں؟
کجھور مکمل پکا ہوا نرم پھل ہوتا ہے، جبکہ چھوارے کچی کھجور (ڈوکا) کو مختلف مراحل سے گزار کر تیار کیے جاتے ہیں اور یہ سخت ہوتے ہیں۔
ڈھکی کے باغبان حاجی محمد اقبال نے چھوارے بنانے کا طریقہ بتاتے ہوئے کہا کہ وہ گزشتہ 25 سالوں سے چھوارے بناتے آئے ہیں۔ چھوارے بنانے کے لیے سب سے پہلے کجھور کے درختوں سے ڈوکا کاٹ کر اتارا جاتا ہے۔ پھر پانی اُبال کر اس میں رنگ کاٹ ڈالا جاتا ہے اور ایک مخصوص وقت کے لیے اس میں ڈوکا پکایا جاتا ہے۔ پکانے کے بعد کچی کھجوروں کو ایک ہفتے تک دھوپ میں خشک ہونے کے لیے پھیلا دیا جاتا ہے جس سے یہ چھوارے میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔
چھوارے کیوں بنائے جاتے ہیں؟
جب ڈاکٹر اسلم سے پوچھا گیا کہ کجھور سے چھوارے کیوں بنائے جاتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ڈوکا یعنی کجھور سے کھائے جانے کے قابل کھجور بنانے کے لیے زمینداروں کو کولڈ اسٹوریج اور پروسیسنگ سولر ڈرائینگ ٹنل درکار ہوتی ہے۔ حکومت کے عدم تعاون اور سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے زمیندار دیسی طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے کچی کجھور ہی سے چھوارے بنا لیتے ہیں،کیونکہ اس میں ان کو کم خرچ میں زیادہ منافع ہوتا ہے۔
50 سولر ڈرائینگ ٹنل
انہوں نے بتایا کہ ابھی ڈھکی میں غیر ملکی این جی او کی طرف سے 50 سولر ڈرائینگ ٹنل لگائی جا رہی ہیں، جس سے زمیندار کافی مقدار میں کھجور بنانے کے قابل ہو جائیں گے۔ ان ٹنلز کی وجہ سے موسمیاتی اثرات سے بچتے ہوئے 3 دنوں میں تقریباً 100 من کجھور تیار ہو سکے گی۔
سہولیات کی فراہمی
ڈاکٹر اسلم سمجھتے ہیں کہ کچی کھجور سے چھوارے بنانے کا کام نہ صرف عارضی ہے، بلکہ کم منافع بخش ہے۔ اس کی نسبت پھل کو پکا کر کھائے جانے کے قابل کھجور بنانے کا کام زیادہ منافع بخش بھی ہے اور دیرپا بھی۔ حکومت اور نجی سرمایہ کاروں کو زمینداروں کے لیے سولر ڈرائینگ ٹنل اور کولڈ اسٹوریج کے سہولیات فراہم کرنی چاہییں تاکہ چھوارے کے بجائے بڑے پیمانے پر کجھور تیار ہو سکے۔
زمینداروں کو درپیش چیلنج
ڈاکٹر اسلم کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ڈھکی کھجور کے زمیندار کافی متاثر ہو رہے ہیں۔ پھل لگنے سے چھوارے تیار ہونے کے درمیان اگر بارش ہو جائے تو کجھور سبزی کی طرح خراب ہوجاتی ہے۔ اگر 20 سے 25 دن بالکل بھی بارش نہ ہو تو چھوارے اور کجھور کا کاروبار اربوں روپے تک چلا جاتا ہے، جس سے زمیندار خوشحال ہوجاتے ہیں۔ لیکن اس دوران ایک دن کی بارش بھی کروڑوں روپے کا نقصان کرا دیتی ہے۔