Bella ciao تھیم پر بنا پشاور کا مشہورکیفے کیوں بند کرنا پڑا؟

جمعرات 5 ستمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان بھر کے عوام جہاں مہنگائی سے تنگ ہیں، وہیں آئے روز کوئی ایسی خبر سامنے آتی ہے جو لوگوں پر بجلی بن کر گرتی ہے، حالیہ بجٹ کے بعد تنخواہ دار طبقے سمیت تاجر بھی دہائی دے رہے ہیں موجودہ حالات میں گزارا کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے نوجوان شعیب خٹک کھانے پکانے کا شوق رکھتے ہیں، اور فرصت کے وقت گھر میں نئی نئی ڈشز بناتے ہیں، انہوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنا شوق پورا کرنے کے لیے ریسٹورینٹ کھولنے کا فیصلہ کیا، اور تقریباً 2 سال پہلے پشاور کی مصروف ترین یونیورسٹی روڈ میں Bella Caio کیفے کے نام سے ریسٹورینٹ کے کاروبار کا آغاز کیا، لیکن صرف 2 سال بعد ہی شعیب خٹک ریسٹورینٹ بند کرنے پر مجبور ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں ایف بی آر چھوٹے تاجروں کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دینے کے لیے تیار

شاہد خٹک کے مطابق بے تحاشا ٹیکسز، حکومتی افسران کے رویے، چھاپے، جرمانے اور بجلی کے زیادہ بلوں کی وجہ سے وہ کاروبار بند کرنے پر مجبور ہوئے۔ ’ریسٹورنٹ میرا جنون تھا، 3 سال تک محنت کے بعد نئے انداز میں کیفے کھولا، لیکن حکومت ہی کی وجہ سے بند کرنا پڑا‘۔

’خیبرپختونخوا میں کاروبار کے لیے ماحول سازگار نہیں‘

شعیب خٹک نے وی نیوز کو بتایا کہ صوبے میں کاروبار کے مواقع ہیں لیکن ماحول ساز گار نہیں ہے۔ ’میرا ذاتی تجربہ ہے کہ جب آپ کاروبار شروع کرتے ہیں تو سرکاری ادارے سہولت دینے کے بجائے مسائل پیدا کرتے ہیں‘۔

انہوں نے بتایا کہ جب انہوں نے ریسٹورینٹ کا آغاز کیا تو پہلے ہی روز متعلقہ ضلعی انتظامیہ کے افسران نے چھاپہ مارا اور مختلف بنیادوں پر ریسٹورینٹ سیل کرنے کی دھمکی دی۔ ’پہلے دن بہت زیادہ رش تھا، لوگ انتظار میں باہر روڈ پر بھی کھڑے تھے، ایسے حالات میں ریسٹورینٹ سیل کرنے کی دھمکی دی گئی‘۔

شعیب خٹک نے کہاکہ اگر گھر پر بھی زیادہ مہمان آجائیں تو کچن کی حالت ذرا مختلف ہوجاتی ہے، یہی صورت حال ان کے ریسٹورینٹ کی بھی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ حکومتی محکمے معمولات کو ٹھیک کرنے کے بجائے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ بات بات پر جرمانہ عائد کردیا جاتا ہے۔ ’ہر ماہ 2 سے 3 جرمانے معمول کی بات تھی اور 25 سے 75 ہزار تک ایک وقت میں جرمانہ کیا جاتا تھا‘۔

شبیر حسین پشاور کے رہائشی ہیں جو Bella ciao ریسٹورینٹ کھلنے کے بعد کئی بار بچوں کو لے کر کھانا کھانے وہاں پر گئے۔ انہوں نے بتایا کہ پہلی بار انہیں ٹیبل کے لیے 2 گھنٹے تک باہر انتظار کرنا پڑا تب جاکر بیٹھنے کے لیے جگہ ملی۔

انہوں نے بتایا کہ یہ بہت الگ طرح کا ریسٹورینٹ تھا، جہاں پر بچے بہت انجوائے کرتے تھے، اور کھانا بھی پسند کرتے تھے۔

’ایک ہی کام کے لیے کئی محکمے ہیں‘

شعیب خٹک نے بتایا کہ صوبے میں ریسٹورنٹس پر چیک اینڈ بیلنس کے لیے کئی محکمے ہیں جو الگ الگ چھاپہ مارتے ہیں اور جرمانہ یا جیل کی سزا دیتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ حکومت کی جانب سے کوئی ایس او پیز نہیں ہیں، جو بھی آتا ہے اپنی مرضی کے مطابق کام کرتا ہے۔ ’ایک ادارے کے آفیسر کو کچن میں پودا رکھنا پسند نہیں ہے وہ آپ کو جرمانہ کر دیتا ہے جبکہ دوسرا آپ کو پودا رکھنے کی تاکید کرتا ہے، اب سمجھ نہیں آتا کہ کس کی بات مانی جائے‘۔

انہوں نے بتایا کہ کئی بار ایسا ہوا کہ 2 سے 3 جرمانے ایک ہی دن میں کیے گئے۔ ضلعی انتظامیہ والے الگ، حلال فوڈ اتھارٹی والے الگ، جبکہ ان کے ذیلی محکمے الگ سے چیکنگ کرنے آتے تھے۔

’ٹیکسوں کی بھرمار لیکن سہولیات صفر ہیں‘

شعیب خٹک نے کہاکہ ہر حکومتی محکمہ ٹیکس وصول کرتا ہے، لیکن اس کے مقابلے میں سہولیات کچھ بھی نہیں دی جاتیں، صوبائی ادارہ کیپرا سیلز ٹیکس لیتا ہے، اور اس کے اہلکار وقتاً فوقتاً چھاپہ بھی مارتے ہیں، اور کچھ بھی اٹھا کر لے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ اگر محکمے کے افسران سے قانون کی بات کی جائے تو برا مناتے ہیں اور مختلف مدات میں جرمانہ یا اضافی ٹیکس عائد کرکے غصہ نکالا جاتا ہے، میرے ساتھ بھی کئی بار ایسا ہوا۔

انہوں نے کہاکہ رائیڈرز موٹرسائیکل پر ریسٹورنٹ کے نام کے لیے بھی پی ڈی اے کو ٹیکس دینا پڑتا ہے، جبکہ ٹورازم اتھارٹی والے بھی سالانہ ٹیکس مفت میں وصول کرتے ہیں۔

’ریسٹورنٹ کو بند کرکے سکون محسوس کررہا ہوں‘

شعیب خٹک کے مطابق ریسٹورنٹ کا کاروبار شروع کرکے ان کا سکون ختم ہوگیا تھا، جس کی وجہ آئے روز چھاپے اور دیگر ایشوز تھے۔ ’ہر روز چھاپے، جرمانے، سرکاری دفاتر کا چکر لگا کر تنگ آگیا تھا۔ اب ذہنی سکون محسوس کررہا ہوں‘۔

انہوں نے کہاکہ ہر محکمے اور آفیسر کو خوش کرنا پڑتا تھا، اور ایسا کرکے تنگ آگیا تھا۔

’اب پاکستان چھوڑنے پر غور کررہا ہوں‘

شعیب خٹک کے مطابق ان کا کاروبار بہت اچھا چل رہا تھا لیکن سرکاری محکموں کی مداخلت سے حالات خراب ہوئے۔ ان کے مطابق ہر ماہ جو کچھ منافع ہوتا تھا وہ جرمانے میں چلا جاتا تھا۔ جبکہ سرکاری محکموں کے افسران چھاپہ مارتے وقت تصویریں اتار کر سوشل میڈیا پر ڈالتے ہیں جس سے کاروبار پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں تاجروں کی ہڑتال، حکومت دکانداروں سے کتنا ٹیکس وصول کرنا چاہتی ہے؟

انہوں نے بتایا کہ وہ پاکستان چھوڑنے پر غور کررہے ہیں، اور مناسب موقع ملتے ہیں یہاں سے چلے جائیں گے۔

مزید اس ویڈیو رپورٹ میں شعیب خٹک کی زبانی

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp