جنگ سے متاثرہ بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے موسیقی کے طالبعلم اپنا ہنر غزہ کے گلیوں میں عام کررہے ہیں، گزشتہ برس اکتوبر سے جاری اسرائیلی جارحیت کے باعث تعلیم حاصل کرنے سے قاصر، یہ نوجوان فلسطینی موسیقار میں بے گھر بچوں کو موسیقی کی ابجد سے آگاہی کے ساتھ ساتھ پرفارم بھی کررہے ہیں تاکہ انہیں امید اور تحریک ملے۔
ایڈورڈ سعید نیشنل کنزرویٹری آف میوزک کے 16 سالہ طالبعلم صالح جابر گزشتہ 6 سالوں سے مشرق وسطیٰ کا گٹار یعنی عود بجارہے ہیں، وہ روزانہ ریاض کرتے تھے اور مختلف اہم مواقع جیسے عید یا پھر یوم خواتین پر اپنے فن کا مظاہرہ بھی کرتے تھے لیکن غزہ پر اسرائیلی جارحیت نے سب بدل کر رکھ دیا۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ دوسرے ملکوں کی طرح کیوں نہیں ہے؟ ایک ٹانگ سے محروم 6 سالہ مریم کا سوال
’جنگ کے ابتدائی 3 ماہ تک ہم کچھ بھی نہیں کرسکے لیکن بالآخر مجھے اپنے شوق کی طرف لوٹنا پڑا اور موسیقی کے دیگر طلبا کے ہمراہ جنگ سے بے گھر بچوں کے لیے موسیقی پیش کرنا شروع کی تاکہ ان کا دھیان جنگ سے ہٹایا جائے، جنگ کے صوتی اثرات کا متبادل ریلیف فراہم کیا جائے۔‘
صالح جابر کے مطابق فلسطینی بچوں کو جنگ کے دوران صرف جنگی طیاروں، سائرن، بم دھماکوں یا پھر انسانی چیخوں، رونے دھونے کی آوازیں ہی سنائی دیتی ہیں۔ ’ہم ان (بچوں) کا دھیان ان ناگزیر آوازوں سے بٹا کر موسیقی بلکہ فلسطینی موسیقی کی طرف لاتے ہیں تاکہ وہ پر امید رہیں۔‘
مزید پڑھیں: نوزائیدہ جڑواں بچے پیدائشی سرٹیفکیٹ بننے سے قبل ہی شہید، غزہ جنگ کا دل دہلا دینے والا واقعہ
سما نجم ایک اور طالبعلم ہیں، جو نہ صرف موسیقار ہیں بلکہ ایک اچھی گلوکارہ بھی، جو فلسطینی بچوں کو ان کے کیمپوں کے نزدیک ہی موسیقی کے بارے میں آگاہی فراہم کررہی ہیں بلکہ ان کے لیے گاتی بھی ہیں۔
’پہلے میں روز ہی عود پر ریاض کرتی تھی اور گا بھی لیتی تھی مگر جنگ نے سب کچھ بند کردیا، اب میں کلاس لینے انسٹیٹیوٹ بھی نہیں جاسکتی۔‘
اس صورتحال میں سما نجم نے ساتھی طلبا کے ساتھ مل کر فیصلہ کیا کہ شیلٹر ہوم اور کیمپوں میں جا کر جنگ سے متاثرہ بے گھر بچوں کے لیے اپنا وقت صرف کریں گی تاکہ اس بظاہر مایوس کن صورتحال میں بھی پر امید رہا اور رکھا جائے، اور یہی مقصد انہیں بھی پر امید رکھنے میں معاون ہے۔
مزید پڑھیں: غزہ جنگ کیخلاف اسرائیل میں یہودیوں اور مسلمانوں کو مشترکہ امن مارچ
صالح جابر کے مطابق موسیقی بچوں کو ان کے ماحول سے قدرے آزاد کرتی ہے اور ان میں زندگی کی جوت جگاتی ہے، انہیں بتاتی ہے کہ زندگی ابھی باقی ہے، ایک مستقبل منتظر ہے۔ ’جب میں بچوں کو خوشی سے گاتا ہوا دیکھتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی اور دنیا میں ہیں۔‘
غزہ کی روزمرہ زندگی میں جہاں انسانی بقا اولین ترجیح رہتی ہے، بے گھر بچوں کے لیے موسیقی کے طالبعلموں کا اپنی تعلیم اور ہنر کا اس نوعیت کا مظاہرہ اور استعمال جنگ سے متاثر ننھے ذہنوں کے لیے ایک خوش آئند تبدیلی ہے، بے گھر حسن الحالس سمجھتے ہیں کہ موسیقی اداسی کا مداوا اور انہیں خوش ہونے پر مجبور کردیتی ہے۔