مقامی میڈیا میں شائع خبر کے مطابق چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیےکہ عدالت کو اس معاملے میں آئینی حدود دیکھنا ہوں گی۔
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نےکی۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے آج اپنے دلائل میں اسلامی اسکالرز اور امریکی جریدے کے مضامین سے مثالیں پیش کیں۔
مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ قانون کی حدود میں رہ کرعدالت کو معاملہ دیکھنا ہوگا، شیڈول 4 میں سب چیزیں واضح ہیں،کسی کی پسند یا ناپسند کی بنیاد پر چیزیں طے نہیں کی جاسکتیں، قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا استحقاق ہے، نیب ترامیم کیس گزشتہ سال جولائی میں شروع ہوا،کیس ختم ہونے میں وقت لگےگا، کوئی ریڈلائن کراس کرے تو عدالت صحیح غلط کا فیصلہ کرسکتی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ اگرکچھ غیرقانونی ہو رہا ہو تو وہاں عدالت مداخلت کرسکتی ہے، اس پر وفاقی حکومت کے وکیل نےکہا کہ اگر نیب ترامیم میں کچھ غیرقانونی ہے تو یہ درخواست گزار نے ثابت کرنا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیےکہ عدالت کو نیب ترامیم کے معاملے میں آئینی حدود دیکھنا ہوں گی۔
نیب ترامیم کیس کی سماعت 17 جنوری تک ملتوی کردی گئی۔