سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی نے بھی اسلام آباد میں پرامن اجتماع اور امن عامہ سے متعلق بل کثرت رائے سے منظور کرلیا جس میں یہ طے کیا گیا ہے کہ اگر کسی نے بغیر اجازت اسلام آباد میں احتجاج کیا تو اسے 3 سال قید سزا ہوگی، اور اگر کسی نے دوبارہ یہ کام کیا تو اسے 10 سال قید کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں مسلم لیگ ن کے رہنما دانیال چوہدری نے بل پیش کیا جسے کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا تاہم پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور سنی اتحاد کونسل نے شدید احتجاج کرتے ہوئے اس بل کی مخالفت کی۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد میں بلا اجازت جلسہ اور شرکت پر کتنے سال قید ہوسکتی ہے؟
اس بل میں یہ واضح کیا گیا کہ اسلام آباد میں کسی بھی احتجاج کے لیے اجازت ڈپٹی کمشنر اسلام آباد دیں گے، اگر وہاں سے اجازت نہیں ملے تو پھر چیف کمشنرسے اپیل کی جاسکتی ہے۔ لیکن ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ چیف کمشنرکے فیصلے کے خلاف سیکرٹری داخلہ کے پاس نظرثانی درخواست دی جاسکے گی۔
اسلام آباد میں کسی بھی اجتماع یا جلسے کیلئے کم ازکم سات روز پہلے (ڈپٹی کمشنر) ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو درخواست دینی ہوگی، درخواست اس جلسے یا اکٹھ کا کوئی کوآرڈی نیٹر تحریری صورت میں دے گا۔ جلسے کے مقام، شرکاء کی تعداد اور جلسے یا اکٹھ کا وقت اور مقاصد بتانا ہوں گے۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پاس جلسے پر پابندی کا اختیار ہوگا۔
بل کے مطابق ضلعی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر اگر اسلام آباد کی حدود میں کوئی احتجاج ہوتا ہے تو ابتدائی طور پر 3 سال قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے اور اگر یہی کام دوبارہ ہوا تو پھر پھر 10 قید بھی مل سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: میں خود این او سی ہوں، جلسہ ہو کر رہے گا، علی امین گنڈاپور
واضح رہے کہ اس سے قبل یہ بل سینیٹ میں بھی منظور ہوچکا ہے۔ سینیٹ کے اجلاس میں چیئرمین سینیٹ عرفان صدیقی نے وضاحت دیتے ہوئے کہا تھا کہ مذکورہ بل اسلام آباد کی حد تک نافذالعمل ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس وقت بھی مختلف مظاہروں اور احتجاج کے پیش نظر اہم مقامات پر کنٹینرز لگا کر راستے مسدود کردیے گئے ہیں جس کے باعث شہری پریشانی کا شکار ہیں۔
عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ دارالحکومت میں عوامی جلسوں کی ایک جگہ مختص کردی جائے گی، جہاں احتجاج کیا جاسکے، بل متعارف کرانے کا مقصد ہے کہ اسلام آباد میں احتجاج کو قانون کے مطابق بنایا جاسکے۔