ڈیمنشیا ایک طبی حالت ہے جو دماغ کی مختلف صلاحیتوں کو متاثر کرتی ہے،جیسے کہ یادداشت، سوچنے کی صلاحیت، فیصلے کرنے کی صلاحیت، اور زبان کی مہارت، جس کی وجہ سے متاثرہ فرد کو روزمرہ کی زندگی میں مشکلات پیش آتی ہیں۔
دنیا بھر میں ڈیمنشیا کے کیسز میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اس کا اندازہ لانسیٹ پبلک ہیلتھ جرنل میں شائع ہونے والی تحقیق سے لگایا جاسکتا ہے، محققین کا کہنا ہے کہ سنہ 2050 تک دنیا بھر میں تقریباً 15 کروڑ سے زیادہ افراد ڈمنشیا کے مرض میں مبتلا ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: بہرے پن کے علاج کا موت اور ڈیمنشیا سے کیا تعلق ہے؟
یاد رہے کہ دنیا بھر میں اموات کی ساتویں بڑی وجہ ڈمینشیا ہے۔
ڈیمنشیا کی اقسام
ڈیمنشیا کی 4 اقسام ہیں، جن میں ایک الزائمر کی بیماری ہے اور یہ ڈیمنشیا سب سے عام قسم ہے، جس میں دماغ میں پروٹین کی کثرت دماغی خلیات کو متاثر کرتی ہے۔
دوسری قسم ویسکلر ڈیمنشیا ہے، جس میں دماغ کو خون کی فراہمی متاثر ہوتی ہے اور دماغی خلیات کو نقصان پہنچتا ہے۔
تیسری لیو باڈی ڈیمنشیا میں سوچنے میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔
چوتھی قسم فرنٹو ٹمپورل ڈیمنشیا ہے، اس کی وجہ سے دماغ کے سامنے اور پچھلے حصے میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، جو مزاج اور رویے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
ڈیمنشیا کی علامات کیا ہیں؟
نیورولوجسٹ ڈاکٹر محمد طارق نے ڈیمنشیا کی علامات کے حوالے سے بتایا کہ ڈیمنشیا ایک ایسی بیماری ہے جو دماغ کو متاثر کرتی ہے اور یادداشت، سوچنے اور روزمرہ کے کام کرنے کی صلاحیت کو کمزور کر دیتی ہے، اس کی علامات آہستہ آہستہ ظاہر ہوتی ہیں، اگر اس کا مکمل اور بروقت علاج نہ کیا جا رہا ہو تو وقت کے ساتھ ساتھ بدتر ہوتی جاتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ڈیمنشیا کیا ہے، اس کے اثرات کیا جوانی میں بھی ظاہر ہو تے ہیں؟
مزید کہا کہ اس بیماری کا خاتمہ تو نہیں کیا جا سکتا، لیکن اس کو علاج سے کافی حد تک کنٹرول ضرور کیا جاسکتا ہے۔
ڈمینشیا کی سب سے بنیادی علامات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ چیزیں رکھ کر بھول جانا، نام یاد نہ رہنا، راستے یاد رکھنے میں دشواری ہونا، مزاج میں تبدیلی وغیرہ شامل ہیں۔
ڈمینشیا کی تشخیص
ڈاکٹر محمد طارق کے مطابق ڈمینشیا کی تشخیص ڈاکٹر کی مدد سے کی جاتی ہے، جو کہ مریض کی طبی تاریخ، جسمانی معائنہ اور مختلف ٹیسٹ کا جائزہ لے کر ہی بتایا جاسکتا ہے، اگر آپ کسی میں بھی اس قسم کی علامات دیکھیں، تو اس کا ایک بار معائنہ ضرور کروا لینا چاہیے۔ کیونکہ زیادہ تر مریضوں کو اسی وقت ڈاکٹر کے پاس لایا جاتا ہے جب ان کی حالت زیادہ بگڑ جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر معمولی علامات کے دوران چیک اپ کروا لیا جائے،اور اگر مریض میں ڈمینشیا کی تشخیص ہوتی ہے تو اس کو کنٹرول کرنا نہ صرف آسان ہے بلکہ مریض کی زندگی کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا کی قریباً ایک تہائی آبادی جسمانی سرگرمیوں سے دور ہے، عالمی ادارہ صحت کا انتباہ
مزید بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کہا جاتا ہے کہ ڈمینشیا 60 یا 70 برس کی عمر کے افراد کو ہوتا ہے، لیکن بعض اوقات کچھ ایسی صورتحال بھی پیدا ہوجاتی ہیں جو ڈمینشیا جیسی علامات کا سبب بنتے ہیں، جیسے کسی حادثے کے یعنی گرنے سے یا پھر ایکسیڈنٹ کی وجہ سے سر پر چوٹ آئے۔
اس کے علاوہ اپنے کسی عزیز کی موت کا صدمہ وغیرہ، ٹیومر ، وٹامنز کی کمی، ادویات کے منفی اثرات، تھائیرائیڈ، گردے یا جگر کے مسائل بھی یادداشت کے سنگین مسائل پیدا کرسکتے ہیں، جو ڈیمنشیا کا سبب بنتے ہیں۔
پاکستان میں ڈمینشیا
’پاکستان میں ڈمینشیا کے مرض میں مبتلا افراد کا کوئی ڈیٹا تو رجسٹرڈ نہیں ہے لیکن پاکستان میں اس مرض میں مبتلا مریضوں کی تعداد لاکھوں میں ہے اور یہ تعداد مزید بڑھتی جارہی ہے۔‘
ڈمینشیا میں کس قسم کی غذاؤں کا استعمال کرنا چاہیے؟
ڈاکٹر محمد طارق کا کہنا ہے کہ ڈمینشیا کی علامات کو کچھ حد تک کنٹرول کرنے کے لیے کچھ غذائیں معاون ثابت ہوسکتی ہیں، جن میں گیری دار میوے، بیریز، پھلیاں، گندم، مچھلی، مرغی اور کھانے میں زیتون کا تیل وغیرہ شامل ہیں، جبکہ سرخ گوشت، مکھن اور اسٹک مارجرین، پنیر، مٹھائیاں اور تلے ہوئے کھانوں سے پرہیز ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سمارٹ واچ کے ذریعے دماغی بیماریوں کی تشخیص کا آسان اور سستا طریقہ دریافت
چونکہ ڈمینشیا کا کوئی مخصوص علاج موجود نہیں ہے، اس لیے مریضوں کو ایسی سرگرمیوں میں مصروف رکھا جائے جو ان کے موڈ کو خوشگوار بنائے، جیسے رقص، پینٹنگ، باغبانی، کھانا پکانا، گانا اور دیگر سرگرمیاں ان کو دماغی طور پر بہتر محسوس کروا سکتی ہیں۔
’کچھ جسمانی حالات اور عادات دماغی صحت کو متاثر کرسکتی ہیں اور ڈمینشیا کا خطرہ بڑھا سکتی ہیں۔ جن میں ذیابیطس، موٹاپا اور سگریٹ نوشی شامل ہے۔‘
کیونکہ ذیابیطس ایک ایسی بیماری ہے جو خون میں شوگر کی مقدار کو بڑھا دیتی ہے، اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو یہ دماغ کی رگوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور یادداشت اور سوچنے کی صلاحیت کو متاثر کرسکتی ہے۔
اسی طرح موٹاپا بھی دماغ کی صحت کے لیے خطرناک ہے، موٹاپے سے ہونے والی سوزش دماغ کے خلیوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور ڈمینشیا کا خطرہ بڑھا سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈپریشن میں کمی چاہتے ہیں تو گرم پانی سےنہانا شروع کر دیں
سگریٹ نوشی بھی دماغ کی رگوں کو نقصان پہنچاتی ہے اور خون کے بہاؤ کو کم کرتی ہے۔ یہ دماغ کی آکسیجن کی فراہمی کو کم کرتی ہے، جس سے ڈمینشیا کے بڑھنے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں، ڈپریشن بھی ڈمینشیا کی وجہ بن سکتا ہے اور آج کل چھوٹی عمر میں بھی ڈمینشیا کے کیسز سامنے آرہے ہیں، جس کی وجہ یہی وجوہات بنتی ہیں۔
واضح رہے کہ لانسیٹ پبلک ہیلتھ جرنل میں شائع ہونے والی تحقیق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر دنیا بھر میں تعلیم تک رسائی کے مواقع کو بہتر کر لیا جائے تو 2050 میں ڈمینشیا کے ممکنہ کیسز کی تعداد بہت کم ہوسکتی ہے۔
لیکن محققین موٹاپے، ذیابیطس اور سگریٹ نوشی کے بارے میں اتنے پرامید نہیں، محققین کے مطابق یہ ایسی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے تقریباً 70 لاکھ افراد 2050 تک ڈمینشیا میں مبتلا ہوجائیں گے۔
ڈپریشن بذات خود ڈمینشیا کی وجہ نہیں بنتا
سائیکالوجسٹ سہرش افتخار نے ڈمینشیا اور ڈپریشن کے حوالے سے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ ایک بہت اہم سوال ہے جس کا مختصر جواب یہ ہے کہ ڈپریشن بذات خود ڈمینشیا کی وجہ نہیں بنتا، لیکن دونوں کے درمیان ایک پیچیدہ تعلق ضرور موجود ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں: سگریٹ نوشی آپ کی یادداشت کی دشمن کیوں؟
ڈپریشن اور ڈمینشیا کے درمیان تعلق
سہرش افتخار نے مزید بتایا کہ ڈپریشن اور ڈمینشیا دونوں ہی عمر کے ساتھ بڑھنے والے امراض ہیں، دونوں میں یادداشت کے مسائل، توجہ مرکوز کرنے میں دشواری اور موڈ میں تبدیلیاں جیسی علامات مشترک ہوسکتی ہیں، ڈپریشن ڈمینشیا کے علامات کو بڑھا سکتا ہے اور ڈمینشیا والے افراد میں ڈپریشن کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
ڈپریشن اور ڈمینشیا کے درمیان تعلق یہ ہے کہ دونوں امراض میں دماغ میں کچھ تبدیلیاں مشترک ہوسکتی ہیں، کچھ جینیاتی عوامل دونوں امراض کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں، اس کے علاوہ غیر صحت مند غذا، کم جسمانی سرگرمی اور سماجی تنہائی دونوں امراض کے خطرے کو بڑھا سکتی ہیں۔
ڈپریشن اور ڈمینشیا میں فرق
ڈپریشن موڈ ڈس آرڈر ہے جس میں اداسی، بے حوصلگی اور کسی بھی چیز میں دلچسپی نہیں رہتی۔ جبکہ ڈمینشیا ایک دماغی بیماری ہے جس میں یادداشت، سوچنے اور فیصلے کرنے کی صلاحیت متاثر ہوسکتی ہے۔