آج کے جدید دور میں ہاتھ سے تیار کردہ گڑیا سے کھیلنے کا رواج شاید دم توڑ رہا ہے، مگر مقامی طور پر دستکاروں کی بنائی ہوئی کالی، بھوری اور نیلی آنکھوں والی انواع و اقسام کی گڑیا بہت سوں کے بچپن کی یادوں کا ایک خوبصورت حصہ رہ چکی ہیں۔
راولپنڈی کی رہائشی عنبرین فاطمہ اور ان کی والدہ فوزیہ بی بی نہ صرف گڑیا سازی کی اس روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، دونوں نے محدود وسائل کے ساتھ اپنے گھر سے اپنے اس چھوٹے کاروبار کا آغاز کیا جسے ‘چن ماہی’ کا نام دیا گیا ہے، ان کے ہاتھوں سے بنی خوبصورت گڑیاں پاکستان کے ثقافتی لباس اور زیورات سے سجی ہوتیں ہیں۔
دونوں ماں بیٹی اپنے خاندان کی کفیل ہیں اور کسی کے دست نگر ہونے کے بجائے انہوں نے اپنے گڑیا سازی کے اسی فن کو ذریعہ معاش بنایا، عنبرین سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے نہ صرف اپنے کاروبار کو وسعت دے رہی ہیں بلکہ غیر ملکی صارفین تک رسائی کے لیے بھی کوشاں ہیں۔