یوکرین کی’ چڑیلیں‘ کون ہیں اور روسی فوج پر کیسے حملہ آور ہوتی ہیں؟

پیر 16 ستمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یوکرین کے دارالحکومت کیف کے مضافاتی علاقے میں تقریباً 100 خواتین روسی ڈرونز کو مار گرانے کے لیے تربیت حاصل  کر رہی ہیں، بوڑھی، سفید بال، آرمی ٹوپی کے نیچے چہرے کو ڈھانپے ویلنٹینا بات کرتے ہوئے مسکراتی ہیں اور خود کو ’بوچا کی جادوگرنی‘ کہتی ہیں۔

’بوچا کی چڑیلوں‘ کے نام سے دُنیا بھر میں شہرت حاصل کرنے والی یہ 19 سے 64 سال کی عمر کی تقریباً 100 خواتین کا غیر سرکاری نام ہے جو کیف کے شمال مغرب کی مضافاتی کمیونٹی میں یوکرین کی فضائی دفاعی یونٹوں میں اپنی جزوقتی فوجی خدمات پیش کر رہی ہیں۔

ہر ’بوچا چڑیل‘ ان روسی ڈرونز کو مار گرانے کے لیے رائفلوں اور مشین گنوں کو سنبھالنے کی تربیت لے رہی ہیں جو مہینے میں کئی بار ان کے گھروں کے اوپر پرواز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ روس کی جانب سے یہ ڈرونز عمارتوں کو اڑانے کے لیے کیف کی طرف روانہ کیے جاتے ہیں، ڈرونز کے گونجتے ہوئے جھنڈ 2022 کے اوائل سے یوکرین کی جانب بھیجے جاتے ہیں، جنگ کے آغاز میں روسی افواج نے 33 دن تک ضلع بوچا کے زیادہ تر حصے پر قبضہ کیا جہاں ان پر شہریوں پر ظلم کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔

یوکرین کے حکام اور بین الاقوامی جنگی جرائم کے مبصرین الزام لگا رہے ہیں کہ روسی جنگجوؤں نے سینکڑوں شہریوں کو ہلاک کیا اور ہزاروں کو لوٹ لیا، عصمت دری اور تشدد کا نشانہ بنایا۔

حکام کا کہنا ہے کہ قتل و غارت گری اور نقل مکانی سے تباہ ہونے والے بوچا کے رہائشیوں نے ایک ایسی کمیونٹی کے بارے میں بتایا جو اجتماعی طور پر صدمے کے بعد ذہنی تناؤ کی بیماری کا شکار ہے اور بدلہ لینے کے لیے پرجوش ہے۔

حکام کے مطابق اپریل سے اب تک درجنوں خواتین نے سکون اور تسکین حاصل کرنے کے لیے ‘بوچا چڑیل’ بننے کے لیے فوج کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔

3 بیٹوں کی ماں 51 سالہ ویلنٹینا نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’بوچا چڑیل ‘ بن کر مجھے دوست، ساتھی، بھائی اور بہنیں ملیں، ’میری ماں خوش ہے کہ میں نے خود کو پا لیا ہے۔

ویلنٹینا اور ان کی ساتھیوں نے انٹرویو میں کہا کہ فوجی قوانین کے مطابق وہ اپنا نام اور ذاتی تفصیلات چھپا رہی ہیں ’ ہم سب مہربان روحیں ہیں‘ ہم سب کے لیے ایک ہی دل رکھتی ہیں۔

ویلنٹینا نے سنجیدگی سے کہا کہ ہمارا ایک ہی مقصد ہے کہ اپنی جیت کو تیز کیا جائے اور جیت میں کسی بھی طرح سے اپنا حصہ ڈالا جائے۔

بیس بال ٹوپی کے نیچے سے سفید بالوں کے ساتھ خود کو کیموفلاج کیے ہوئے، وہ ایک اسالٹ رائفل اور دھول، خشک پتوں اور پائن سوئیوں سے ڈھکی ہوئی جیکٹ تھامے ہوئے تھیں۔

ویلنٹینا اور 4 دیگر خواتین نے سورج کی روشنی میں ایک فوجی رینج پر کئی گھنٹے گزارے۔ انہوں نے وہاں اپنی گاڑیوں کے لیے کھدائی کی اور گڑھے بنائے۔ ان دنوں، خواتین ہتھیاروں کو لوڈ کرنے، گولی مارنے اور حملے کرنے کا طریقہ سیکھنے میں مصروف ہیں۔

جہاں وہ تربیت حاصل کر رہی ہیں اس مقام کو ’مورڈور‘ کہا جاتا ہے اور روسی فوجیوں کو یوکرین میں’اورکس‘ کہا جاتا ہے۔ مورڈور جے آر آر ٹولکین کی مڈل ارتھ فینٹسی سیریز کی خیالی دنیا کا ایک حصہ ہے جبکہ ’او آر سی ایس‘ (اورکس) بری مخلوق کو کہا جاتا ہے۔

جب آپ یونیفارم پہنتے ہیں تو آپ عورت یا مرد نہیں ہوتے

عرب ٹی وی کے مطابق حال ہی میں ان خواتین اور ان کے اساتذہ نے سرمئی رنگ کے پلاسٹک اور پائن کے لاگوں سے ڈھکے ایک ڈگ آؤٹ پر دھاوا بول دیا جس سے کرسمس کے درخت کی طرح بو آرہی تھی۔

یہاں مرد اساتذہ کو غیر رسمی طور پر کام کرتے دیکھا گیا ہے، کبھی کبھار گالیاں دیتے اور چیختے ہیں۔ ان کے ایک بدتمیز کرنل اینڈری ورلیٹی کا کہنا ہے کہ ’جب آپ یونیفارم پہنتے ہیں تو آپ عورت یا مرد نہیں ہوتے۔ آپ ایک محافظ ہیں۔

دیکھا گیا ہے کہ ایسی خواتین بھی ہیں جو فوجی فرائض کی انجام دہی اور ذمہ دار ہونے میں کسی بھی مرد کو پیچھے چھوڑ سکتی ہیں۔

بوچا ایئر ڈیفنس یونٹ میں خدمات انجام دینے والے ولادیسلاو کورگ نے عرب ٹی وی کو بتایا کہ ’ان کی حکمت عملی ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔ ہر روسی ڈرون میں ایک جی پی ایس ٹریکر ہوتا ہے اور اپنے آپریٹر کو براہ راست ویڈیو اسٹریم کرتا ہے۔

ولادیسلاو کورگ نے بتایا کہ جب یوکرین کا ایئر ڈیفنس یونٹ فائرنگ شروع کرتا ہے تو ان میں سے ایک ڈرون، جو بغیر بم والا ’جاسوس‘ ہوتا ہے، ہدف کی جانب پرواز کرتا ہے اور ایک پروجیکٹر کو آن کرتا ہے تاکہ اس کے آپریٹرز ڈرون کے جھنڈ کو روک سکیں۔

ہر بوچا چڑیل کو ہفتوں کی تربیت سے گزرنا پڑتا ہے

ویلنٹینا نے کہا کہ ان کے لیے یہ جگہ کوئی اتنی بھی آسان نہیں ہے، میں نے سوچا تھا کہ میں اسے سنبھالنے کے قابل نہیں ہوں گی’ لیکن جسم اسے سنبھالتا ہے اور جب طاقت ختم ہو جاتی ہے، تو روح اندر آ جاتی ہے‘۔ فلک جیکٹ پہنے پش اپ کرتے ہوئے وہ زور زور سے جھکی ہوئی بول رہی تھیں۔

ویلنٹینا کے بغل میں پہلی بار آنے والی کیٹرینا بھی موجود تھیں، جو کیف میں ایک آرٹ گیلری کی مالک ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’میں پریشان تھی، میں نے پہلے کبھی بندوق نہیں اٹھائی بلکہ ہلائی بھی نہیں‘ انہوں نے ٹریننگ کے بعد کہا لیکن اب میں چیزوں کو تھوڑا سا سمجھنا شروع کر رہی ہوں۔ خواتین نے مذاق کرتے ہوئے کہا کہ یہ مشقیں تو ان کے لیے ’مفت آؤٹ ڈور جم‘ تھیں۔

ایک اور خاتون نتالیا نے عرب ٹی وی کو بتایا کہ ’ تماشا دیکھنے کے بجائے اس میں حصہ لینا بہتر ہے، ہماری تربیت بھی اجتماعی سائیکو تھراپی کی ایک شکل ہے۔ ویلنٹینا کے گاؤں پر قبضہ تو نہیں کیا گیا ہے، لیکن ان کی فیملی موت کے قریب ہولناکیوں سے بچ گئی۔

انہوں نے بتایا کہ ایک دن گولہ باری نے انہیں برف سے ٹھنڈے تہہ خانے میں داخل ہونے پر مجبور کر دیا۔ دیواریں کانپ رہی تھیں، اور چھت سے اسٹوکو کے ٹکڑے گرتے رہے۔ گولہ باری اتنی زور دار تھی کہ وہ اپنے ڈرے ہوئے بچے کی باتیں نہیں سن سکتی تھی، جسے اس نے گلے لگایا ہوا تھا حالانکہ وہ اس کے کان میں چیخ رہا تھا۔

کھچا کھچ بھری گاڑی میں مغرب کی طرف نکلتے ہی روسی فوجیوں نے اسے جھنڈی دکھا کر نیچے اتار ا اور اہل خانہ کو کھڑکیاں نیچے اتارنے کا حکم دیا۔

ویلنٹینا نے کہا کہ ’یہ ایک ایسا صدمہ اور ایسا خوف تھا جس نے بالآخر اسے خواتین جنگجوؤں کے گروپ میں شامل ہونے پر مجبور کیا۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp