وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس پر سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ کا ردعمل غیرقانونی ہے۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ آئین کے مطابق صدارتی آرڈیننس جاری ہوا ہے، اگر پارلیمنٹ اسے مسترد کرتی ہے تو ختم ہوجائے گا۔
یہ بھی پڑھیں جسٹس منصور علی شاہ نے آرڈیننس کمیٹی کی تشکیل نو پر اعتراضات اٹھا دیے، اجلاس میں بیٹھنے سے بھی انکار
انہوں نے کہاکہ آئینی ترمیم کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے، کہیں نہیں لکھا کہ سپریم کورٹ جو کہے گی وہ آئین ہوگا۔
رانا ثنااللہ نے کہاکہ سپریم کورٹ کے پاس آئین کی تشریح کا اختیار ہے بنانے کا نہیں۔
انہوں نے کہاکہ اس ملک میں سپریم کورٹ نے خود بھی بہت کچھ غیرآئینی اور غیرقانونی کیا، یہاں بیگناہ لوگوں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی اور پھر اس بات کو تسلیم بھی کیا گیا۔
اس موقع پر پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما سلمان اکرم راجا نے کہاکہ آئین کی تشریح کا آخری اختیار سپریم کورٹ کو ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے اکثریتی بینچ نے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے، دوسری جانب سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی ترمیمی آرڈیننس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور آج کے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔
یہ بھی پڑھیں جسٹس منصور کی ججز کمیٹی اجلاس میں عدم شرکت، 63 اے نظرثانی اور آڈیو لیک کمیشن کیس سماعت کے لیے مقرر
جسٹس منصور علی شاہ نے ججز کمیٹی کے سیکریٹری کے نام لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ سابقہ کمیٹی کی بحالی تک میٹنگ میں نہیں بیٹھوں گا، آرڈیننس پر فل کورٹ میٹنگ بھی بلائی جا سکتی ہے۔