ظل شاہ کیس کا ٹرائل اب تک کیوں شروع نہ ہوسکا؟

منگل 24 ستمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

8 مارچ کو لاہور میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی ریلی کے دوران دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر پولیس نے کریک ڈاؤن کیا تھا جس کے دوران پی ٹی آئی کارکن علی بلال عرف ظل شاہ جاں بحق ہوگیا تھا۔ اس وقت پنجاب اور وفاق میں نگران حکومتیں کام کررہی تھیں۔ اس واقعہ کے خلاف 2 ایف آئی آرز درج کی گئی تھیں۔

تھانہ سرور روڑ میں درج کی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ظل شاہ کی موت ویگو ڈالے کی ٹکر سے ہوئی۔ تھانہ ریس کورس می دوسری ایف آئی آر لاش ملنے کے حوالے سے پولیس کی مدعیت میں درج کی گئی۔ دونوں ایف آئی آرز میں پولیس خود مدعی ہے۔ دوسری طرف، پی ٹی آئی کی جانب سے یہ کہا جاتا رہا کہ ظل شاہ کو پولیس تشدد کے ذریعے قتل کیا گیا، پولیس ظل شاہ کو گرفتار کرکے لے گئی اور اس پر تشدد کرتی رہی، جس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔

یہ بھی پڑھیں: ظل شاہ ہلاکت:ذمہ دارپی ٹی آئی خود ہے،عطاتارڑ۔ جوڈیشل انکوائری کرائی جائے،پرویزالہٰی

اس کیس کو اب تقریباً 18 ماہ ہونے کو آئے ہیں مگر ابھی تک اس کیس کا ٹرائل شروع نہیں ہوسکا۔ عمران خان، ڈاکٹر یاسمین راشد، فواد چوہدری سیمت دیگر ملزمان اس کیس میں ضمانت پر ہیں۔ ڈان نیوز کے کورٹ رپوٹرر رانا بلال کے مطابق جب کوئی ایف آر درج ہوتی ہے تو اس کے 14 دن کے اندر پولیس کی جانب سے چالان جمع کروانا لازمی ہوتا ہے لیکن اس کیس کا ٹرائل اب تک شروع نہیں ہوسکا۔

ٓئی

صحافی رانا بلال کے مطابق، اس کیس میں بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پولیس نے ابھی تک مکمل چالان جمع نہیں کروایا، جس کی وجہ سے ٹرائل شروع نہیں کیا جاسکا، ظل شاہ کیس سے متعلق ایک ایف آئی آر میں دہشتگردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں جبکہ دوسری ایف آئی آر میں انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج نہیں کیا گیا ہے، پولیس کی جانب سے چونکہ واقعہ کو حادثاتی قرار دیا گیا ہے، اس لیے اس میں 302 کا مقدمہ اب 322 میں بدل دیا گیا ہے۔

ظل شاہ کیس پر اس کے والد کا مؤقف کیا ہے؟

ظل شاہ کے والد لیاقت علی نے وی نیوز کو بتایا کہ انہیں کچھ معلوم نہیں کہ ظل شاہ کیس میں کیا ہورہا ہے، پولیس نے میری مدعیت میں کوئی ایف آئی آر بھی درج نہیں کی بلکہ اپنی مدعیت میں ایف آئی آر درج کی، اب کیس میں کیا ہورہا ہے مجھے اس کا علم نہیں، مجھے تو یہ بھی نہیں پتا کہ اس کیس میں کس کس کو پولیس نے نامزد کیا ہے، میرے بیٹے کو قتل ہوئے تقریباً 18 ماہ سے زائد کا وقت گزر گیا ہے مگر مجھے انصاف نہیں ملا۔

لیاقت علی نے کہا کہ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا، ’ہم جاں بحق نوجوان کے والد لیاقت علی کو تمام تفتیش سے آگاہ کریں گے اور ثبوت پیش کریں گے، میرے پاس تمام سی ڈی آرز موجود ہیں، ظل شاہ کے خاندان کو ہر صورت انصاف فراہم کیا جائے گا۔‘

انہوں نےبتایا کہ آئی جی کے بیان کے باوجود تاحال مجھے اس کیس کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا گیا، میرا بیٹا بہت معصوم تھا، وہ کسی کو تکلیف نہیں پہچاتا تھا، اس کا قصور اتنا تھا کہ وہ عمران خان کا دیوانہ تھا، وہ صبح شام عمران خان کا ذکر کرتا تھا اور کہتا تھا کہ خان کہے گا تو جان دینے سے گریز نہیں کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی جب بھی کارکنوں کے لیے کوئی کال آتی تو ظل شاہ زمان پارک پہنچنے والوں میں سب سے آگے ہوتا تھا، اس وقت اسے کھانے کا ہوش رہتا تھا اور نہ سونے کا۔

ظل شاہ کی ہلاکت کے بعد ان کی والدہ نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ’میرے بیٹے کو سازش سے قتل کیا گیا، جب سے عمران خان کو گولی لگی، ظل شاہ ہر وقت زمان پارک میں بیٹھا رہتا تھا اور کہتا تھا کہ عمران خان میرے ووٹ سے وزیراعظم بنے گا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ظل شاہ عمران خان کی حفاظت کررہا تھا مگر میرے بیٹے کی حفاظت نہیں کی گئی، یاسمین راشد ہمیں فون کرنے کے بجائے ظل شاہ کو اسپتال کیوں نہیں لے گئیں؟ عمران خان سے کہتی ہوں کہ تمہاری بڑی مہربانی، مجھے میرا بیٹا واپس دے دو‘۔ دوسری جانب ظل شاہ کے والد نے پولیس کی تحقیقات پر اعتماد کا اظہارکیا۔

کیس کے تمام شواہد ثبوتوں کے ساتھ موجود ہیں؟

وی نیوز سے بات کرتے ہوئے سابق نگران صوبائی وزیر اطلاعات عامر میر کا کہنا ہے کہ ظل شاہ کو اسپتال میں چھوڑ کر جانے والوں کی ویڈیوز موجود ہیں، پی ٹی آئی لیڈر کے ڈرائیور کی گرفتاری کے بعد وہ ڈالا بھی برآمد ہوگیا تھا جس سے اس نے ظل شاہ کو ہٹ کیا تھا، سارا جھوٹ ثبوتوں کے ساتھ ثابت ہو گیا تھا، ظل شاہ کا قتل ایک سازش تھا جسے پولیس نے بے نقاب کیا، آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور آج بھی ظل شاہ کے معذور بچوں کی دیکھ بھال کررہے ہیں۔

ظل شاہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کیا کہتی ہے؟

ظل شاہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں سامنے آیا تھا کہ اسے تمام زخم اور چوٹیں اس وقت لگیں جب وہ زندہ تھا۔ علی بلال عرف ظل شاہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ 9 مارچ کو جاری کی گئی جس میں ان کی موت کی وجہ سر اور جسم پر لگنے والی گہری چوٹیں بتائی گئی تھیں۔ رپورٹ کے مطابق علی بلال کی تلی اور جگر دونوں پر گہری چوٹیں آئی تھیں، اس کے علاوہ اس کے جنسی اعضا (ٹیسٹیکلز) پر بھی گہری چوٹ آئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ: ظل شاہ قتل اورجلاؤ گھیراؤ کیس کی تحقیقات کے لیے قائم جے آئی ٹی کو کام سے روکنے کی درخواست مسترد

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ علی بلال کو لگنے والے ان تمام گہرے زخموں سے بے تحاشا خون بہا جس سے اس کے جسم کا تمام اندرونی نظام غیرفعال ہو گیا اور وہ زخموں کی تاب نہ لا سکا، ظل شاہ کے سر اور چہرے پر 7 مقامات پر جبکہ جسم کے مختلف حصوں میں کل 26 مقامات پر چوٹیں اور زخم پائے گئے جس میں سب سے گہرے زخم کھوپڑی، جنسی اعضا اور جگر و تلی کے مقام پر تھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp