پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے راولپنڈی لیاقت باغ میں دوپہر 2 بجے احتجاج کا اعلان کیا گیا تھا۔ جس کے بعد جڑواں شہروں کے داخلی اور خارجی راستوں کو بند کر دیا گیا۔
دوسری جانب ہفتے کے روز صبح سے ہی اہل علاقہ اپنے گھروں سے باہر نکلنے سے قاصر نظر آئے، پی ٹی آئی کے احتجاج کی کال کے دوران پولیس نفری اور اہل علاقہ کے درمیان آنکھ مچولی بھی چلتی رہی ہے۔ راولپنڈی سمیت پنجاب کے بڑے شہروں میں 28 ستمبر کو دفع 144 بھی نافذ کی گئی تھی۔
عمران خان کو خدشہ تھا جلسے کی اجازت نہیں دی جائے گی
یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان نے راولپنڈی میں 28 ستمبر کو جلسے کے بجائے لیاقت باغ کے باہر احتجاج کرنے کی کال دے رکھی تھی کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ جلسے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
دوسری جانب انتظامیہ کی جانب سے راولپنڈی کو جانے والے تمام راستوں کو کنٹینرز لگا کر بند کر دیا گیا تھا۔ اسلام آباد ایکسپریس وے پر فیض آباد کے مقام پر کنٹینرز لگا کر اسلام آباد میں داخل ہونے کا راستہ مکمل طور پر بند کر دیا گیا تھا، جبکہ مری روڈ پر بھی جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر کے لیاقت باغ جانے والے تمام راستے بند کر دیے گئے تھے۔
راولپنڈی کی گلیوں میں بھی رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں
اسی طرح راولپنڈی مری روڈ کے اطراف کی گلیوں کو بھی رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کردیا گیا۔ موٹروے سے راولپنڈی آنے والی ٹریفک کو بھی بند کیا گیا جبکہ راولپنڈی صدر سے لیاقت باغ جانے والی سڑک پر جمعہ کی رات کو ہی رکاوٹیں کھڑی کردی گئی تھیں۔
ادھر اسلام آباد پولیس نے سیکٹر ایچ 13 سے بیرسٹر گوہر خان اور سلمان اکرم کو گرفتار کر لیا، جس کے بعد بیرسٹر گوہر کو تو چھوڑ دیا گیا لیکن سلمان اکرم راجہ اب بھی پولیس کی تحویل میں ہیں۔
ہمیں راولپنڈی نہیں جانے دیا گیا، بیرسٹر گوہر خان
بیرسٹر گوہر نے بعد میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پولیس کی جانب سے ہمیں کہا گیا کہ ہم راولپنڈی کی بجائے واپس چلے جائیں۔ سلمان اکرم راجہ اور میری بحث کے بعد پولیس نے مجھے چھوڑ دیا جبکہ سلمان اکرم راجہ پولیس کی تحویل میں ہیں اور ہمیں راولپنڈی جانے نہیں دیا جا گیا‘۔
شام تقریباً 4 بجے کے قریب لیاقت باغ کے باہر پولیس اور کارکنان کے درمیان جھڑپیں دیکھی گئیں۔ پولیس کی جانب سے آنسو گیس کی شدید شیلنگ کی گئی اور کارکنان کی طرف سے بھی پولیس پر پتھراؤ کیا گیا۔
شام 6 بجے پی ٹی آئی کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان تصادم
شام تقریباً 6 بجے راولپنڈی لیاقت باغ کے باہر ایک بار پھر پولیس اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کے درمیان شدید تصادم دیکھنے کو ملا، پولیس اور کارکنان کے درمیان پتھراؤ اور شیلنگ کا سلسلہ ایک بار پھر سے شروع ہوا۔
پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے کمیٹی چوک سے لیاقت باغ آنے کا راستہ بھی بنایا گیا، اس کے علاوہ صدر سے لیاقت باغ آنے والے راستے پر بھی پی ٹی آئی کے کارکنوں کا ایک جھرمٹ پہنچ گیا۔
پولیس پر پی ٹی آئی کارکنوں پر تشدد کا الزام
پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں نے الزام عائد کیا کہ پولیس کی جانب سے کارکنان کو نہ صرف گرفتار کیا گیا بلکہ ان پر تشدد بھی کیا گیا، کارکنان کی جانب سے جس راستے سے بھی لیاقت باغ آنے کی کوشش کی گئی پولیس کی جانب سے ان پر شدید شیلنگ کی گئی، اس کے علاوہ پی ٹی آئی کی خواتین کارکنان کی بھی گرفتاریاں ہوئیں۔
واضح رہے کہ خواتین کارکنان کی قیادت عالیہ حمزہ کر رہی تھیں اور خواتین کارکنان حکومت مخالف نعرے بازی بھی کرتی رہیں۔ پی ٹی آئی کی خواتین کارکنوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ خواتین کے قافلے پر پولیس نے ربڑ کی گولیاں بھی فائر کی ہیں۔
پولیس پر میٹرو پل سے ربڑ کی گولیاں برسانے کا الزام
عالیہ حمزہ کی جانب سے ویڈیو پیغامات کے ذریعے دعویٰ کیا جاتا رہا کہ ’ ہر 5 منٹ کے بعد شیلنگ کی جا رہی ہے‘۔ اس ملک میں پر امن احتجاج کا بھی یہ حال ہے، ہمارے لوگوں کو سیدھی گولیاں کیوں ماری جا رہی ہیں؟‘۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے میٹرو بس کے پل سے ربڑ کی گولیاں برسائی جاتی رہی ہیں۔
علی امین گنڈاپور کی پشاور واپسی
پولیس اور کارکنان کے درمیان شدید تصادم کے بعد علی اٰمین گنڈاپور نے اسلام آباد 26 نمبر چونگی سے واپس پشاور جانے اور احتجاج کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔
احتجاج ختم ہونے کے بعد علیمہ خان، عالیہ حمزہ کے ساتھ پی ٹی آئی کی دیگر کارکنان جو لیاقت باغ کے باہر موجود تھیں نے کہا کہ ’ہم پر امن طریقے سے احتجاج کرنے آئی تھیں، اب احتجاج ختم ہونے پر واپس جا رہی ہیں، لیکن مری روڈ کی لائٹیں بند کر کے بدترین شیلنگ اور تشدد کیا جارہا ہے۔ ہم نکلنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن ہمیں محصور کر دیا گیا ہے۔‘
رات اندھیرے ہونے کے بعد بھی لیاقت باغ میں پولیس کی گاڑیاں گشت کرتی رہیں اور مسلسل شیلنگ کی جاتی رہی، وہاں موجود صحافیوں پر بھی ربڑ کی گولیاں برسائے جانے کی اطلاعات ہیں۔